اپنے علما و آئمہ کی قدر کریں، اس سے پہلے کہ یہ نعمتیں کہیں چھن نہ جائیں آپ سے
تحریر
ڈاکٹر فیض احمد بھٹی
بخاری شریف سمیت دیگر کتب حدیث کے مطابق اللہ تعالی دنیا سے علم و معرفت اور دانش و عرفان کو ختم نہیں کرتا بلکہ علمائے کرام کے اٹھ جانے سے علم و معرفت اور دانش و عرفان ختم ہوتا جاتا ہے۔ لہذا اس عظیم الشان نعمت (علمائے کرام و آئمہ عظام) کی قدر و احترام کرنا، ان کی خدمت و تکریم کرنا ضروری ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔
ہم بعض لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ اعتراض کرتے ہوے یہ آوازیں کستے ہیں ہیں کہ جی مولوی دین کو بیچ رہے ہیں،،، مثلاً: آذان دینا اور نماز پڑھانا ثواب کا کام ہے؛ تو یہ علما تنخواہ کیوں لیتے ہیں؟! قرآنی تعیلم دینا نیک عمل ہے تو یہ قاری اس نیک عمل پہ پیسے کیوں لیتے ہیں؟! سو یہ دین کو بیچ رہے ہیں۔۔۔۔
قارئین ہم اگر اسی اعتراض کو اگر تھوڑی تفصیل کے ساتھ یوں پیش کریں تو بتائیے کیسا لگے گا؟ کہ قرآن مجید پڑھنا پڑھانا ثواب کا کام ہے، تو جو کمپنیاں قرآن چھاپتی ہیں وہ فری میں قرآن کیوں نہیں چھاپتیں؟ لوگوں کو فری میں قرآن کیوں نہیں دیتیں؟ وہ تو پیسے لیتی ہیں، کاغذ سے لیکر چھپائی و بائنڈنگ تک کے پیسے لیتی ہیں، لوگوں کو آگے قرآن دینے کے پیسے لیے اور ادا کیے جاتے ہیں۔۔۔۔!
اسی طرح حج کرنا بڑا ثوابی کام ہے، تو ٹریول ایجنسیاں مفت میں حج کیوں نہیں کرواتیں؟ وہ تو پیسے لیتی ہیں، جہاز والے پیسے وصولتے ہیں، اگلے تمام انتظامات کے پیسے بھی حجاج ادا کرتے ہیں، حتی کہ قربانی جیسی عظیم نیکی کے بھی پیسے دیتے ہیں وہ بھی مکہ شریف میں۔۔۔۔۔!
اسی طرح مسجدیں بنانا بہت بڑا ثواب ہے؛ کیونکہ اس میں نماز ہوتی ہے، قرآن پڑھا جاتا ہے، اللہ کا ذکر بلند ہوتا ہے؛ لیکن مستری اور مزدور مسجد کی تعمیر پر پیسے لیتے ہیں، مسجد میں استعمال ہونے والے مٹیریل: اینٹوں، سریے اور سیمنٹ کے آپ پیسے ادا کرتے ہیں!
اسی طرح شادی کرنا بہت بڑی نیکی ہے، سنت رسول ہے، لیکن یہ نیکی آپ مفت میں نہیں کرتے بلکہ چھواروں سے لے کر، کپڑوں، زیورات، جہیز، کیٹرنگ اور شادی ہال بکنگ تک لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں۔۔۔۔۔!
علی ھذا القیاس آپ باقی سب نیکی کے کاموں پہ پیسہ خرچ کرتے ہیں اور وہاں آپ کو دین بیچنے خریدنے کا اعتراض یاد نہیں آتا۔ مگر عجیب اور قابل صد افسوس بات یہ ہے کہ جو عالم دین، مولوی، قاری آپ کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہے، آپ کے دین کی فکر کر رہا ہے، آپ کے ایمان کی آبیاری کر رہا ہے، آذان دینے اور نماز پنجگانہ پڑھانے کےلیے ہمہ وقت مسجد میں پابند ہو کے بیٹھا ہے۔ آپ کے بچوں کے کان میں آذان دینے، آپ کے نکاح پڑھانے، جنازے پڑھانے، آپ کی دینی معاملات میں رہنمائی کرنے کےلیے وہ جو اپنا وقت دے رہا ہے، اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو صرف کر رہا ہے،،،،، تو وہاں آپ کو دین بیچنا یاد آ جاتا ہے!!! اب خود بتائیے! اس کی ضروریات کا کون ذمے دار ہے؟؟؟ اسکا بھی پیٹ لگا ہے، اس کے بھی بیوی بچے ہیں، اس کی بھی خوشی غمی ہے۔۔۔۔۔ لہذا اس کا نان و نفقہ اور اس کی ضروریات پوری کرنا آپ کی ذمے داری ہے۔ جس ذمے داری سے بھاگنے کےلیے آپ دین بیچنے کی لفظی گولہ باری کی آڑ لیتے ہیں۔
قارئین! دسیوں سال گزر جاتے ہیں مولوی بیچارے کو 15 ہزار / 20 ہزار روپے تنخواہ پہ آپ کی مذکورہ دینی خدمات سر انجام دیتے ہوے۔ اگر اس بیچارے نے مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آ کر کبھی آپ کو یہ کہ دیا کہ جناب عالی تھوڑی سی میری بھی تنخواہ بڑھا دیں۔۔۔ تو فوراً آپ کے منہ پہ یہ طعنہ آ جاتا ہے کہ مولوی دین بیچ رہا ہے۔۔۔ علاوہ ازیں باقی نیک کاموں پر کسی کو یہ طعنہ نہیں دیا جاتا جیسا کہ ہم اوپر مثالیں دے کر بیان کر چکے ہیں۔
خدارا اس گھٹیا روش کو ختم کریں اور اپنے علما و آئمہ کی قدر و احترام کریں، ان کی زیادہ سے زیادہ خدمت و تکریم کیا کریں؛ تاکہ اللہ بھی راضی ہو اور اس کی مخلوق بھی راضی ہو۔ ورنہ یہ نعمت آپ سے آہستہ آہستہ چھنتی جائے گی یہاں تک کہ علم و معرفت غائب ہو جائے گی اور اس کی جگہ جہالت و گمراہی آ بیٹھے گی۔ پھر نماز پنجگانہ اور قرآن پڑھانا تو دور کی بات آپ کو جنازہ پڑھانے والا بھی کوئی نہیں ملے گا
Comments