**بشریٰ بی بی کا بیان، سعودی عرب پر بہتان یا پی ٹی آئی پر خودکش حملہ؟*
تحریر
*ڈاکٹر فیض احمد بھٹی*
قارئین! جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے، تب سے ہی پاک سعودی تعلقات بے مثال اور لازوال چلے آ رہے ہیں۔ کئی شرپسند عناصر اور سازشی قوتوں نے ان تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی بسیار کوششیں کیں مگر نامراد و نا کام رہے۔ بشریٰ بی بی کا حالیہ بیان بھی اسی قبیل کی ایک ناکام کوشش ہے۔
توشہ خانے کے مقدمات میں یہ بات تو واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ دنیا کی سب سے قیمتی گھڑیاں، سب سے قیمتی جیولری اور سب سے قیمتی تحائف سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو گفٹ کیے۔ اتنے قیمتی ترین تحائف لے کر بھی، انہیں بیچ کر بھی، ان کی قیمت وصول کر کے بھی؛ نہ جانے بی بی صاحبہ نے اتنے سالوں بعد اب کیوں ایسا خطرناک اور ناقابل قبول بیان داغ دیا ہے؟!
قارئین! اگر غور کیا جائے تو وہ اپنے ویڈیو بیان میں بذات خود کہہ رہی ہیں کہ یہ بات انہیں کسی اور سے پتہ چلی۔ حالانکہ وہ سعودی عرب کے دورے میں خان صاحب کے ساتھ خود موجود تھیں۔ جنرل باجوہ وغیرہ وغیرہ بھی موجود تھے۔ اور کہہ یہ رہی ہیں کہ بات ان کو کسی اور یعنی باجوہ سے پتہ چلی ہے۔
جبکہ دوسری جانب جنرل باجوہ نے پوچھنے پر کئی نامور صحافیوں جن میں انصار عباسی، جاوید چودھری اور محمد مالک وغیرہ سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ الزام جھوٹ کا پلندہ ہے۔ ایسی کوئی بات نہ تو سعودیہ نے کہی ہے اور نہ ہی ہم نے کوئی ایسی بات کی ہے۔
یاد رہے! اس دورے میں سابق وفاقی وزیر فواد چودھری اور سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی ان کے ہمراہ تھے۔ لائیو پروگرام میں ان دونوں حضرات سے جب وسیم بادامی نے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی بات ہوئی تھی کبھی؟ تو ان دونوں نے بھی اس الزام کی سختی سے تردید کی۔ حتی کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت سے بھی کئی اہم شخصیات نے برملا اس بات کی تردید کی ہے۔ بلکہ مہر بخاری کے پروگرام میں علی محمد خان نے بھی واضح طور پہ اس الزام کو ریجیکٹ کیا ہے۔
قارئین! اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ بشریٰ بی بی ان ایام میں یہ الزام کیوں لگا رہی ہیں، کہ جن ایام میں سعودی عرب کے ایک اعلی سطحی وفد کی پاکستان آمد ہوئی۔ اور اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری بمع خصوصی تعاون ایگریمنٹس پر وہ دستخط بھی کر گئے ہیں۔ شائد اس الزام کا ھدف یہ ہو کہ سعودیہ اور پاکستان کے ما بین ایسا خلا پیدا کیا جائے، جس سے حالیہ سارے معاہدے اور معاملات کھڈے میں چلے جائیں۔
یا پھر یہ کہ سعودی عرب وہ واحد ملک ہے جو پاکستان کے انتہائی الجھے ہوئے مسائل کو حل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہتا ہے۔ سو شنید یہ تھی کہ شائد عمران خان کے کیسز اور ان کی رہائی کے حوالے سے عنقریب سعودی عرب کوئی اہم کردار ادا کرنے والا ہے،،،، تو بی بی صاحبہ نے اس موقع پر ایسا وار کیا جس سے سعودی حکومت خان کے معاملے سے بالکل پیچھے ہٹ جائے۔ نتیجتاً یا تو وہ جیل میں ہی سڑتے رہیں، اور اگر نکلیں بھی تو سعودی عرب یا کسی گلف کنٹری میں نہیں بلکہ یورپ میں چلے جائیں۔
یاد رہے! بشریٰ بی بی کا یہ بیان نہ صرف پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے؛ بلکہ ان کی اپنی پارٹی کا بھی بیڑا غرق کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ یوں سمجھیے کہ اس الزام سے بی بی نے عمران خان اور پی ٹی آئی کی سیاسی قبر کھود دی ہے۔
قارئین! جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ جنرل باجوہ، فواد چودھری، عمران اسماعیل وغیرہ جو اس دورے میں شامل تھے، ان سب نے اور علی محمد خان سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں نے، بیسیوں صحافیوں جیسا کہ انصار عباسی، نجم سیٹھی، حامد میر، جاوید چودھری، منصور خان اور حکومت سمیت تمام سیاستدانوں نے اس بیان کو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دراڑ ڈالنے والی بدترین سازش اور جھوٹا پراپیگنڈہ قرار دیا ہے۔
علاوہ ازیں مذہبی رہنماؤں میں مولانا فضل الرحمن، پروفیسر ساجد میر، سینیٹر ڈاکٹر عبدالکریم، قاری صہیب میر محمدی، مولانا طاہر اشرفی، ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر، سید انس نورانی، عبد الخبیر آزاد، سید جواد نقوی، مولانا عبد الواحد بلتی، علامہ خلیل الرحمان فضلی، سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، علامہ ابتسام الہی ظہیر سمیت تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جید علما و مشائخ نے بھی اس مبینہ الزام کو جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے، اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
قارئین! یہ بات تو کافی دیر پہلے ہی واضح ہو چکی تھی کہ عمران خان کو اس نوبت پر پہنچانے میں بشریٰ بی بی کا بہت بڑا ہاتھ ہے: بزدار سے لے کر فرح گوگی فراڈز تک، بنی گالہ سے لے کر قادر یونیورسٹی گھپلوں تک، زمان پارک سے لیکر لاھو کور کمانڈر ہاؤس جلانے تک، اڈیالہ جیل سے لیکر پشاور دھرنے اور جلاؤ گھیراو کاروائیوں تک، پارٹی کو سلجھی سیاست سے نکال کر انتہا پسند جماعت بنانے تک، پارٹی پر سرعام کرپشن کے ٹھپے لگوا کر خان کو جیل پہنچانے تک سب سے بڑا کردار بی بی صاحبہ نے ادا کیا ہے۔
اور اب پشاور میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کے فورم سے برادر ملک سعودی عرب کے خلاف زہر اگل کر وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو ایسی دلدل میں دھکیل رہی ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔
آخر میں ہم مذکورہ الزام کے بارے میں کچھ حقائق بتانا اور تبصرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
نمبر1 بشریٰ بی بی نے سعودی عرب پر جو الزام بلکہ بہتان لگایا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ خان صاحب مدینہ شریف میں ننگے پاؤں چلتے پھرتے رہے، جو سعودی حکومت کو ناگوار گزرا۔ لہذا وہ عمران خان کے اس عشق رسول یعنی ننگے پاؤں پھرنے کو برداشت نہ کر سکی اور خان کے خلاف ہو گئی۔ اور پھر انہوں نے باجوہ کو کہا کہ ہم نے تو یہاں شریعت ختم کرنے کی ٹھان رکھی ہے اور تم اس شخص کو اٹھا لائے ہو جو نفاذِ شریعت کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ بندہ پوچھے! خان صاحب کا سعودیہ میں کیا عمل دخل تھا، جو وہ سعودیہ میں نئی شریعت نافذ کرنے لگے تھے، جس سے سعودی حکومت کو خطرہ پڑ گیا؟!
نمبر2 قابل غور بات یہ بھی ہے کہ سعودی حکومت سے جتنے بھی قیمتی تحائف ان کو ملے، وہ اس دورے کے بعد ملے، جس دورے میں ننگے پاؤں کا تذکرہ بی بی صاحبہ فرما رہی ہیں۔ بلکہ اس کے بعد عمران خان کی دعوت پر کراؤن پرنس محمد بن سلمان پاکستان بھی تشریف لائے تھے۔ اور اس دورے کے بعد خان صاحب نے سعودیہ کے مزید 8 دورے بھی کیے۔ بلکہ بشری بی بی اپنے سابقہ شوہر اور بچوں کو بھی ساتھ لے کر گئیں۔ اگر سعودی قیادت کے ذہن میں عمران خان کے ننگے پاؤں چلنے سے کوئی خطرہ ہوتا، تو وہ انہیں فیما بعد دورہ جات میں اتنا ہائی لیول پروٹوکول اور اتنے بیش بہا تحفے ہرگز نہ دیتے۔ اور نہ ہی ان کے دور حکومت میں کراؤن پرنس پاکستان آتے!!!
نمبر3 عمران اسماعیل سابق گورنر سندھ کے مطابق ننگے پاؤں والے دورے کے بعد والے دورے میں سعودی عرب نے خان صاحب، بشریٰ بی بی اور باقی تمام ہمراہیوں کو جن میں عمران اسماعیل اور فواد چوہدری وغیرہ شامل تھے، سب کو ہائی پروٹوکول دیا۔ ایئرپورٹ پہ کارپٹ بچھا کر استقبال کیا گیا۔ بیت اللہ کا دروازہ کھولا گیا۔ جتنی دیر تک کعبے میں بیٹھنا چاہا بیٹھے رہے۔ اسی طرح مدینہ منورہ میں بھی پروٹوکول دیا گیا۔ مسجد نبوی ریاض الجنہ میں نماز و نوافل اور روضہ رسول میں حاضری کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ جتنی دیر ادھر رکنا چاہتے تھے رکے۔ بقول سابق گورنر سندھ اس قدر ہمیں عزت ملی کہ جسے میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا۔
اگر سعودی حکومت کے ذہن میں کوئی ایسی ویسی بات ہوتی تو کیا ننگے پاؤں والے دورے کے بعد وہ ان کو اتنا زیادہ پروٹوکول اور ریسپیکٹ دیتے؟ ہرگز نہیں! تو ان باتوں سے بھی عیاں ہوا کہ بشریٰ بی بی غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں۔
نمبر4 یاد رکھیے! سعودی عرب تو ویسے ہی ہر مسلمان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ حج و عمرہ پہ آنے والوں کو وہ ضیوف الرحمان یعنی اللہ کے مہمان کہتے ہیں۔ خواہ کوئی ننگے پاؤں یا ننگے سر چلے، کوئی سبز عمامہ یا کالا باندھ کر چلے، کوئی قمیض شلوار پہنے یا پینٹ شرٹ پہنے، کوئی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے یا چھوڑ کر پڑھے، کوئی رفع الیدین کرے یا نہ کرے،،، وہ تو کسی کو بھی منع نہیں کرتے! وہ کسی پر بھی سختی نہیں کرتے!۔۔۔ یہ تو عام سے عام آدمی کو وہاں چھوٹ حاصل ہے، عمران خان تو پھر بھی وزیراعظم تھا، وہ بھی پاکستان کا،،،!!! بھلا اس کے خلاف کیسے ہو سکتے تھے وہ؟!
نمبر5 یہ بات بھی حیران کن ہے کہ مدینہ شریف میں خان صاحب کے ننگے پاؤں چلنے سے پاکستان میں شریعت نافذ ہونا کیسے اخذ کیا گیا ہے۔ اور دوسری جانب وہ آل سعود کہ جس نے حرمین شریفین کی حفاظت و خدمت کےلیے اپنا سب کچھ وقف کر رکھا ہے، جن کے آبا و اجداد نے سعودیہ میں شریعت نافذ کرنے اور پھر اسے قائم رکھنے کےلیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور کر رہے ہیں،،، بھلا انہیں سعودیہ میں شریعت ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے اور پاکستان میں نافذ کرنے سے کیا تکلیف ہوگی؟؟!!
نمبر6 پھر انتہائی تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ پہلے یہ ماتم کیا گیا کہ امریکی سازش سے ہماری حکومت ختم کی گئی ہے۔ کچھ دیر بعد یہ بیانیہ آ گیا کہ باجوہ نے ختم کی تھی۔ اور کرتے کرتے اتنی مدت کے بعد آج نئی کہانی گھڑی جا رہی ہے، نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے کہ سعودی عرب نے مداخلت کی تھی۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
حکومت وقت اور مقتدرہ اداروں کو چاہیے کہ فی الفور اس الزام پر ایک اعلی سطحی کمیشن بنا کر مکمل انکوائری کروائی جائے۔ اور اس سازشی بیانیہ کے تمام کرداروں کو بے نقاب کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ورنہ ملکی خارجہ پالیسی کو ایسے جھوٹے الزامات کے ذریعے تباہ کرنے کا یہ سلسلہ رکنے نہیں پائے گا۔
Comments