تعلیمات ِنبوت پر یقین ِکامل کا حصول کیسے ممکن ہے؟تحریر: مولانا امیر محمد اکرم اعوانؒ
یہ بوڑھا آسمان گواہ ہے کہ جب وحی نازل ہوئی روئے زمین پر اسے جاننے اور ماننے والی صرف ایک ہستی تھی محمد رسول اللہ ﷺ کیسی عجیب بات ہے کہ پوری دنیا میں ایک خبر ایک اللہ کے بندے ﷺ کے پاس پہنچے اور روئے زمین پر اقوام ِعالم اس کا انکار کرنے کو تیار کھڑی ہو۔بڑے بڑے دانشور،بڑے بڑے فلاسفر،بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ،بڑے بڑے حکمران،بڑے بڑے لیڈر،ہر طرح کے لوگ، کہیں یہ نہیں ہو سکتا لیکن اللہ کے اس بندے کو اتنا یقین ہو کہ ان سب کی باتوں کو ردّ کردے یہاں سے پتا چلتا ہے کہ دین کے دو حصے ہیں،ایک حصہ ہے جو ظاہر علم آپ تک پہنچتا ہے آپ اسے قبول کرتے ہیں لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ جس نے قبول کر لیا وہ مسلمان ہے اور ایک مسلمان کے جتنے حقوق ہیں وہ اسے حاصل ہیں دوسرا حصہ وہ تیقّن ہے جو نبی علیہ ا لصلوۃ ولسلام کو حاصل ہے کہ یہ بات حتمی اور آخری بات ہے یہ دو حصے ہیں ایک حصہ ہے بات کا سننا جاننا دوسرا ہے اس پر حق الیقین کتنے لوگوں نے انکار کیا، کتنے لوگوں نے تردید کی،بڑے بڑے جلسے ہوئے مکہ مکرمہ میں،کتنے دانشور جمع ہوئے،کتنے لوگوں نے حضور ﷺ کو راہ سے ہٹانے کی کوشش کی،کتنی چیزیں پیش کیں،کہا آپ کو حکومت دے دیتے ہیں،دولت جمع کر کے دے دیتے ہیں،غرض دنیوی کشش رکھنے والی جتنی چیزیں تھیں سب کی پیشکش کر دی کیسا خوبصورت جواب حضورﷺ نے فرمایا! کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر چاند لاکر رکھ دو ایک پر سورج میں پھر بھی یہی کہوں گا کیونکہ یہی حق ہے دنیا کی دولت یا اقتدار تو تم دے سکتے ہوسورج چاند تو تم نہیں لا سکتے اگر تم وہ بھی لا کر رکھ دو میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ یہی حق ہے۔صحابہ کرام ؓ کی فضیلت کیا ہے؟ صحابیت بہت بڑی عظمت ہے اور نبوت کے بعد عظیم ترین درجہ صحابیت ہے،جہاں صحابیت کی انتہا آتی ہے وہاں سے نبوت کا مقام شروع ہو جاتا ہے۔صحابہ ؓ کو صحابیت کے لیے کتنے پاپڑبیلنے پڑے،کتنی مشقتیں کی گئیں؟نبی اکرم ﷺ کی صرف ایک نگاہ نے سب مسلمان مرد عورت بچے کو صحابیؓ بنا دیا۔ صحابیؓ کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے صرف تعلیم حاصل نہیں کی،وہ یقین بھی حاصل کر لیاجو محمد رسول اللہ ﷺ کے قلب اطہر میں ہے اور جس درجے کایقین صحابی ؓ میسر ہوا،وہ غیر صحابی کو میسر نہیں ہوا،کیفیات قلبی کی بات ہے اب جو درجہ نگاہ پیغمبر ﷺ سے نصیب ہوا،اس کے علاوہ کسی دوسرے ذریعے سے تو نصیب نہیں ہو سکتاتو صحابیؓ صرف صحابہؓ کیوں ہیں؟ کیو نکہ انہیں صرف تعلیمات ِنبوت نہیں پہنچیں برکاتِ نبوت بھی بدرجہء اتم پہنچیں اور انہیں ارشاد ِباری کے ایک ایک لفظ،ایک ایک کلام پر پورا یقین حاصل ہوا۔آقائے نامدار ﷺ سے دو نعمتیں تقسیم ہوتی ہیں تعلیمات ِنبوت:کلمہ طیبہ سے لے کر زندگی کے ہر مسئلے کا حل،قرآن کریم حدیثِ پاک یہ کیا ہے؟ سب تعلیمات ِنبی کریم ﷺ ہیں اس کے ساتھ ایک شعبہ اورہے برکات ِنبوت:جو برکات ِنبوت ہیں وہ یقین اور تیقن،جو ان تعلیمات پر بندے کو قائم کر دے اور وہ کہے کہ یہ یقیناً ہوناہے اورزندگی اس کی تیاری میں بسرکر دے،اسے تصوف کہہ لیں، طریقت کہہ لیں۔یہ کوئی دین سے الگ چیز نہیں ہے انہی تعلیمات پر یقین ِقلبی حاصل کرنا تصوف ہے کسی کشف کا نام تصوف نہیں ہے،الہام و القا ء کا نام تصوف نہیں ہے،کسی کرامت کا نام تصوف نہیں ہے،کسی کے کام آنے کانام یا کسی کو دعا دینا یا کسی کی اولاد ہونے کے لئے دعا کرنا یہ تصوف نہیں ہے۔ تصوف کیا ہے؟ تعلیمات ِنبوت پر یقین ِکامل کا حصول،یہ یقین یہ کیفیت دل کی ہے،اس لیے ایمان کی شرط میں بھی ہے کہ اقراربالّلسانِ و تصدیق بالقلب زبان سے اقرا ر اور قلب سے تصدیق، تب ایمان ہے۔اب تصدیق قلبی کا تو ہمارے پاس کوئی معیار نہیں ہے جو زبانی کلمہ پڑھتا ہے ہم اسے مسلمان سمجھتے ہیں لیکن آخرت میں محض زبان پہ فیصلے نہیں ہوں گے،کیفیات قلبی بھی ساتھ دیکھی جائیں گی یہ کہتا کیا تھا اور اس کے دل میں کیا تھا؟تو جو دل میں ہوتا ہے وہ کردار بن جاتا ہے جوزبان پہ ہوتا ہے وہ دعویٰ رہ جاتا ہے۔ یہ ایک اصول ہے کہ آپ جو بات زبانی کہتے ہیں وہ کردار بن جاتا ہے کوئی اپنا باطن دیکھنا چاہے تو اپنا کردار دیکھے،اپنے رویے دیکھے،اپنا ذریعہ معاش دیکھے،اپنے خرچ کرنے کے انداز اپنی زندگی کے اطوار کا موازنہ کرے کہ حضور ﷺ نے کس انداز میں جینے کا حکم دیا اور میں کس انداز سے جی رہا ہوں؟کیسے عجیب لوگ تھے! لمبا واقعہ ہے مشرکین نے کچھ صحابہؓ کو دھوکے سے بلا لیا اور پکڑ کر انہیں شہید کر دیااس واقعہ کا حضورﷺ کو بڑا رنج ہوا لیکن ایک صحابی ؓ کا قاتل بارگاہِ نبویﷺ میں آیا اوراس نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں ان قاتلوں میں سے ہوں جنہوں نے آپ ﷺ کے صحابہؓ کو شہید کیاہے جس بندے کو میں نے نیزہ مارا تو اس کے سینے کے پار ہو گیا اوراس کے آخری الفاظ یہ تھے فزت بربّ الکعبہ۔مشرکین عرب بھی اپنے انداز میں بیت اللہ کی بہت زیادہ عزت کرتے تھے اورربّ کعبہ کو بھی اپنے انداز میں مانتے تھے اس کے پاس یہ تصور نہیں تھا کہ ایک شخص عین مرتے وقت آخری جملہ جو کہے اورربّ کعبہ کی قسم کے ساتھ کہے وہ جھوٹ نہیں کہہ سکتاہے اس نے کہا سچ یہی ہے، لیکن یہ فلاسفی میری سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ تو ہار گیا وہ قتل ہو گیا لیکن وہ کہتا ہے میں جیت گیا وہ کیسے جیت گیا؟ اوریہی بات اس کے اسلام لانے کا اور شرف ِصحابیت سے سرفراز ہونے کا سبب بن گئی آپ صحابیؓ کے یقین کی کیفیات دیکھیں کہ میدان کارزار میں سینے سے نیزہ پار ہو گیا،آخری لفظ یہ نکلے کہ ربّ کعبہ کی قسم میں جیب گیا،میں شہید ہو گیا،میں اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر پہنچ گیا،یہ قلبی یقین تھا یقین کمزور ہوتا تو کہتا ہائے میں مارا گیااپنی اپنی حیثیت کے مطابق یہ قلبی یقین حاصل کرنا صحابہؓ سے تابیعینؒ، تابیعینؒ سے تبع تابعین ؒ اور تبع تابعینؒ سے آج تک اور قیامت تک اللہ کے خاص بندے یہ حاصل کرتے جائیں گے اور یہ جو سینے کی کیفیات ہیں یہ صفحہ قرطاس سے منتقل نہیں ہوتیں یہ دلوں سے دلوں تک سفر کرتی ہیں ان کے لیے کوئی لفظ وضع نہیں کیا گیا،کوئی قلم نہیں بنا جو انہیں لکھے کوئی کاغذ نہیں بنا جن پر لکھی جائیں ان کے لیے واضع نے کوئی الفاظ وضع نہیں کیے،یہ کیفیات ہیں محسوس کی جا سکتی ہیں،بیان کرنا مشکل ہے،لکھنا پڑھنا مشکل ہے تو جن لوگوں نے یہ کیفیات حاصل کیں وہ اولیاء اللہ کہلائے،صوفی کہلائے ان میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے آگے بھی تقسیم کرنے کی سعادت حاصل کی ہر صوفی شیخ نہیں ہوجاتاحاصل کرنا ایک بات ہے،اسے تقسیم کرنا دوسری بات ہے کتنے پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں جو آگے پڑھا نہیں نہیں سکتے،جو پڑھا سکتے ہیں وہ شیخ ہوتے ہیں جن کو اللہ یہ توفیق دیتا ہے کہ یہ کیفیات تقسیم بھی کریں،انہیں شیخ کہتے ہیں اور یہی تصور ہے پیر کا کہ وہ یقین جو بارگاہ ِرسالت ﷺ سے تقسیم ہوتا ہے پیر صاحب ہمارے دل میں بھی پیدا کر دیں،اگر یہ نہ ہو تو پھر پیری مریدی کی ضرورت نہیں ہے ہاں وہ شیخ ہو سکتا ہے جو ہمارے دل میں بھی یہ یقین منتقل کردے ہمیں دین پر،قرآن پر، حدیث پر، آخرت پر، ارشادِ باری پر،ارشادات نبویﷺ پر وہ یقین ہو جائے کہ موت آئے تو اس یقین پر ہم فخر کر سکیں کہ ہم جیت گئے۔ اللہ کریم نے اس کا ایک ہی راستہ سارے قرآن میں بتایا ہے،وہ ہے ذکرِ کثیر،ذکر دلوں میں استعداد پیدا کرتا ہے قبولیت کی، دلوں کو صاف کرتا ہے برکاتِ نبوت وصول کرنا ایک انعکاسی عمل ہے آپ ایک شیشے سے سورج کی شعاعیں منعکس تو کر سکتے ہو لیکن آگے بھی شیشہ ہو گاتو پھر وہ دگنی ہو کر چمکیں گی پتھر ہو گاتو واپس نہیں آئیں گی یہ چیزیں انعکاسی ہیں،شیخ کے دل سے طالب کے دل پہ آتی ہیں لیکن دل میں قبولیت کی استعداد ہونی چاہیے۔ ہمارے پاس اللہ کریم کا کلام بھی تعلیماتِ نبوت میں سے ہے،ہمیں نبی کریم ﷺ نے عطا فرمایا کہ یہ قرآن ہے قرآن کی تفسیر بھی ہمارے پاس ارشاداتِ نبوّت حدیث ِپاک موجود ہے اب جس چیز کے ہم محتاج ہیں ضرورت مند ہیں وہ ہے یقین جو کتابوں سے نہیں آتا،مضامین پڑھنے سے نہیں آتا،باتیں سننے، تقریریں سننے سے نہیں آتا وہ انعکاسی عمل ہے اور دلوں سے دلوں کو منتقل ہوتا ہے دلوں کو منتقل کرنے والا دل اگر کامل بھی ہو تو قبول کرنے والے میں استعداد نہ ہو تو کیا فائدہ؟ اگر قبول کرنے والے میں استعداد ہے اورپیر صاحب ہی نقلی ہیں تو کیا فائدہ؟دیکھنا یہ ہے کہ جسے پیر یا شیخ بنا رہا ہوں کیا اس کی مجلس میں مجھے کوئی ذرہ اس یقین کا ملتا ہے؟ مولانا رومی فرماتے ہیں: چنیں مردے کہ یابی خاک او شو اگر ایسا بندہ مل جائے جس سے یہ یقین دل میں پیدا ہو جائے تو اس کے پاؤں کی خاک بن جا اسیر حلقہء فتراک ِ ا و شو اس کی جوتیوں کا غلام بن جا پھر اسے مت چھوڑ کیونکہ یہ مقصدِ حیات ہے۔یہ یقین اللہ کی رضامندی کا سر ٹیفکیٹ ہے اور پوری عملی زندگی کو بدلنے کے لیے یہ یقین چاہئے اپنے اندر یقین نہ ہو تو زندگی میں تبدیلیاں نہیں آتیں جتنا ہو اتنی مثبت تبدیلیاں آجاتی ہیں اور اس کو پرکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اپنے کردار کو دیکھو وہ آپ کو بتا دے گا کہ آپ کے اندر کتنا یقین ہے چونکہ جتنا یقین ہوتا ہے اتنا کردار نکھرتا جاتا ہے،سدھرتا جاتا ہے،اتباع رسالت نصیب ہوتی چلی جاتی ہے اور اسی کو فنا فی الرسول کہتے ہیں،بندے کی اپنی پسند کوئی نہیں،جو رسول اللہ ﷺ کو پسند ہے وہی اس کی پسند ہے۔فنا فی الرسول کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس کی اپنی رائے ختم ہو گئی اور ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کسی معاملے میں وہ ذاتی ہو، قومی ہویا بین الاقوامی ہو آپ کی اپنی رائے ختم ہو جائے آپ بارگاہ ِ رسالت ﷺ سے پوچھیں کہ اس کا کیا کرنا ہے؟ پھر آپ اس پر عمل کریں تواس محنت،اس مجاہدے کا،اس مل بیٹھنے کا،اس سارے کام کا ماحصل،یہ یقین کی دولت ہے۔آپ قرآن کریم جو اللہ کی کتا ب ہے، حدیث شریف کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے،لاکھوں کی تعداد میں حدیث مبارکہ ہیں سب یقین سے پر ہیں،مشائخ کے ہاں اسی یقین کے حصول کے لیے جاتے ہیں آپ کبھی حضرت جیؒ (مولانا اللہ یار خان) کی تقریرں سنیں آپ کو ایک ایک جملے سے یقین ٹپکتا ہوا نظرآئے گا یعنی جو کہہ رہا ہوں وہ یقینی ہے،سچ ہے اوریہ کہنے والے کے طرز تخاطب سے ٹپکتا ہے جھلکتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک قول ہے،وہ فرماتے ہیں آج قیامت قائم ہو جائے تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہو گی عجیب بات ہے ناں کہ دنیا فنا ہو جائے نئی دنیا بن جائے،مردے زندہ ہو جائیں،جنت دوزخ سامنے آ جائیں،فرماتے ہیں مجھے حیرت نہیں ہو گی اس لیے کہ مجھے اس پر اتنا یقین ہے جتنا اس کو دیکھ کر یقین ہو تو دیکھی چیز پرتو حیرت نہیں ہوتی ایک چیز کو آپ نے دیکھ رکھا ہے حیرت نہیں ہو گی۔فرماتے ہیں اگر آج قیامت قائم ہو جائے مجھے کوئی حیرت نہیں ہو گی یقین کا وہ درجہ ہے جیسے ہر چیز بچشم خود دیکھی ہو یہ مقصود ہے اوریہ حاصل کرنے کا نام تصوف ہے دل کو اتنا صاف کرنا ہے آئینہ دل کو اتنا دھونا ہے اتنا چمکانا ہے کہ اس میں وہ یقین منتقل ہو جائے آخرت پر حساب کتاب پر،اللہ کی بارگاہ میں حاضری پر،عذاب وثواب پر یقین حاصل ہو جائے۔
Commenti