جہلم (رپورٹ :پروفیسر خورشید علی ڈار )
وفاقی وزیر ریلوے اور چیئرمین ریلوے کی کارگزاری عید کے ایام عوام کے لیے مثالی تھی گزشتہ روز دوران سفر چئیر مین سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نا ہوئی تفصیلات کے مطابق مورخہ 19 جون پاکستان ایکسپریس ریلوے سے دینہ تا کراچی سفر کرنے کا اتفاق ہوا ڈبہ نمبر 2 اے سی والا تھا فیصل آباد تک سفر کسی حد تک قابل گزارا تھا وہاں پر مزید دو ڈبے اے سی والے لگا دیے گئے اب کیا تھا اے سی نے فنکشن کرنا چھوڑ دیا تھا شدید گرمی تھی اب اے سی بھی جواب دے گیا تھا اللہ کے فضل سے 20 جون بوقت دس بجے ریل گاڑی کراچی پہنچ گئی اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن مسافروں نے بہتر سہولت حاصل کرنے کے لیے کرایہ 7500 روپے دیے ان کو سہولت سے کیوں محروم رکھا گیا اے سی کا خراب ہونا ریلوے محکمہ کی ناقص کارگزاری ہے مزید برآں ڈبہ نمبر 2 اس قابل نہیں تھا کہ اس کو استعمال کیا جاتا ہر طرف گندگی تھی متعلقہ ڈبے کی وائیرنگ انتہائی خراب تھی واش روم کی یہ حالت تھی کہ اس کو استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا محکمہ ریلوے ناقص کارگزاری کی وجہ سے نقصان میں ہے جبکہ انڈیا کا محکمہ ریلوے منافع حاصل کر رہا ہے وہاں کا وفاقی وزیر کھڑا ہو کر ریلوے میں سفر کرتا ہے کیا ہمارے وزیر ریلوے اور چیئرمین ریلوے حقیقت کو جاننے کے لیے ریل کا سفر کرنا پسند کریں گے مہذب معاشروں میں حکمران عوام کے خادم ہوتے ہیں جبکہ پاکستان کے حکمران بادشاہ اور عوام غلام ہے پاکستان کیسے ترقی کرے گا ۔۔۔
Commenti