top of page
Writer's pictureIDREES CHAUDHARY

مادری زبان پنجابی: تعارف، تاریخ، اہمیت* حصہ دوم (آخری حصہ) *تحریر:* ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

*مادری زبان پنجابی: تعارف، تاریخ، اہمیت*

قسط نمبر2 آخری قسط


*تحریر:*

ڈاکٹر فیض احمد بھٹی


اس قسط میں پنجابی زبان کے کچھ ثقافتی پہلو، ادبی خصائص اور چند مشہور شعراء کے چیدہ چیدہ اشعار پیش خدمت ہیں۔

قارئین! صوبہ پنجاب کو پانچ دریاؤں کی سر زمین کہا جاتا ہے۔ وادی سندھ میں پنجابیوں کو آباد ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔ مؤرخین کے مطابق پنجابی لوگ اس علاقے میں 2500 قبل مسیح سے آباد ہیں۔ پنجاب کا علاقہ پاکستان اور ہندوستان دونوں دھرتیوں پر محیط ہے۔ اور پنجابی زبان بھی دونوں ملکوں میں بولی جاتی ہے۔ اگرچہ سرحد کی دونوں جانب رسم الخط مختلف ہیں۔ صوبہ پنجاب میں پنجابی زبان کےلیے مروجہ رسم الخط شاہ مکھی ہے اور اسے سیکھنا آسان ہے۔ کیونکہ یہ عربی اور فارسی رسم الخط سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔ پنجابی زبان کی گرامر پہلی بار فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں 1814ء کو ترتیب دی گئی تھی۔

*پنجابی زبان کی وسعت* کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دو ملکوں (پاک و ہند) اور چار بڑے مذاہب (مسلمانوں، سکھوں، ہندوؤں اور عیسائیوں) میں صدیوں سے بولی جانے والی زبان ہے۔ یہ شاید دنیا کی واحد زبان ہے جو تین مختلف رسم الخط: شاہ مکھی، گور مکھی اور دیونا نگری میں لکھی جاتی ہے۔

*پنجابی زبان کی* معیاری یا سٹینڈرڈ بولی "ماجھی لہجہ" ہے جو لوک ادب، گیتوں، فلموں اور ڈراموں وغیرہ میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ دریائے جہلم سے دریائے بیاس تک کے پھیلے ہوئے پاکستان کے لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات اور ساہیوال ڈویژنوں کے علاوہ بھارتی اضلاع امرتسر، پٹھانکوٹ، ترنتار اور گورداسپور میں آباد اکثریت کی زبان ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے جموں میں ڈوگری، سرگودھا ڈویژن میں شاہ پوری اور جھنگ کے علاقے میں جانگلی اور جھنگوی وغیرہ بھی اس کی ذیلی شاخیں ہیں۔ جبکہ مقامی طور پر بھی کئی ایک لہجے موجود ہیں۔ 12ویں صدی میں پنجابی زبان کے پہلے مستند شاعر بابا فرید پاکپتن (1265-1175ء) کے علاوہ سلطان باہو، (1691-1630ء)، بلھے شاہؒ (1757-1680ء)، وارث شاہؒ (1798-1722ء) اور حافظ محمد لکھوی (1893-1803ء) جیسے عظیم شاعروں کے کلام بھی پنجابی زبان کے ماجھی لہجہ میں ملتے ہیں۔

*پنجابی زبان کی دوسری* بڑی بولی "سرائیکی لہجہ" ہے جسے 1981ء کی مردم شماری میں پہلی بار ایک الگ زبان کے طور پر شمار کیا گیا، 12 فیصد عوام کی مادری بولی ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مغربی علاقوں: ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان ڈویژنوں میں بولی جانے والی یہ پنجابی بولی، ملتانی، ریاستی، ڈیرہ والی اور تھلوچی لہجوں میں تقسیم ہے۔ اس بولی کے بہت سے الفاظ سندھی زبان سے بھی ملتے ہیں اور اس کا اپنا رسم الخط بھی بنایا گیا ہے۔ سرائیکی لہجے کے سب سے بڑے شاعر خواجہ غلام فریدؒ (1901-1845ء) تھے جو کوٹ مٹھن، بہاولپور میں پیدا ہوئے تھے۔ شاکر شجاع آبادی بھی اسی لہجے کے مشہور شاعر تھے۔

*پنجابی زبان کی تیسری* بڑی بولی "پوٹھواری لہجہ" ہے جو راولپنڈی ڈویژن کے خطہ پوٹھوار کے مرکز گوجرخان کے علاوہ راولپنڈی، جہلم، چکوال اور اٹک کے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ اس بولی کے میرپوری، پہاڑی اور گوجری لہجے بھی ہیں، جو آزاد کشمیر میں بولے جاتے ہیں۔ "اچھنا" اور "گچھنا" یعنی آنا اور جانا وغیرہ جیسے مخصوص الفاظ اس بولی کی پہچان ہیں۔ گھیبی بھی پوٹھواری بولی کا ہی ایک لہجہ ہے جو فتح جھنگ، پنڈی گھیپ اور میانوالی میں بولا جاتا ہے۔ عظیم روحانی شاعر میاں محمد بخشؒ (1907-1830ء) میرپور، آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے تھے۔

*پنجابی زبان کی چوتھی* بڑی بولی "ہندکو لہجہ" ہے جس میں شمالی ہندکو، جنوبی ہندکو، پشاوری، کوہاٹی، چھاچھی، دھنی اور اعوانکاری لہجے وغیرہ آتے ہیں۔ "ہندکو" کا لفظی معنی "ہندوستان کے پہاڑ" ہیں۔ ہندکو بولی کو پہلی بار 1981ء کی مردم شماری میں پنجابی زبان سے ایک الگ زبان کے طور پر گنا گیا ہے۔ جو پاکستان کے تقریباً اڑھائی فیصد عوام کی زبان ہے۔ اور اکثریت ہزارہ ڈویژن کے تین اضلاع، ایبٹ آباد، ہری پور اور مانسہرہ میں آباد ہے، جو صوبہ خیبر پختونخواہ کا حصہ ہیں۔ پشتو کے بعد اس صوبہ کی یہ سب سے بڑی زبان ہے، جو دس فیصد عوام بولتی ہے۔

*قارئین!* پنجابی زبان ایک مؤثر ادبی پس منظر کی مالک ہے۔ اپنی عارفانہ شاعری کے حوالے سے پنجابی زبان عوام کی روح میں بستی ہے اور ان کے دل و دماغ کو تسخیر کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ اگر پنجابی کو قومی زبانوں میں سے ایک قرار دے دیا جائے تو پنجابی بولنے والی عوام کے لیے بہت آسانیاں پیدا ہوں گی۔

پنجابی کے عظیم شعراء نے پنجابی زبان کو اپنے مختلف جذبات و خیالات کے اظہار، اور ثقافت و تاریخ بیان کرنے کا بہترین ذریعہ بنایا۔ اور آج بھی پنجابی بولنے اور سمجھنے والے دلوں پر ان کا کلام وجد و سرور کی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔

*کالم کے آخر میں* پنجابی کے مشہور شعراء کے کلام سے چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیے اور لطف اٹھائیے!

*کلام بابا فرید:*

اُٹھ فریدا سُتیا، جھاڑو دے مسیت

توں سُتا رب جاگدا، تیری ڈاڈھے نال پریت

اٹھ فریدا ستیا صبح نماز گزار

جو سِر سائیں نا نیویں سو سر کپ اُتار

اٹھ فریدا ستیا، تیری داڑھی آیا بور

اگا نیڑے آ گیا، پیچھا رہ گیا دور

*کلام بابا بلھے شاہ:*

علم پڑھیاں اشراف نہ ہون جیہڑے ہوون اصل کمینے

پتل کدی نئیں سونا بندا بھانویں جڑیے لعل نگینے

شوم کدی نئیں صدقہ کردا پاویں ہوون لکھ خزینے

بلھیا باہج توحید نئیں جنت ملنی بھانویں مریے وچ مدینے۔

*کلام حضرت سُلطان باہو:*

الف اللّه چنبے دی بوٹی مرشد من میرے وچ لائی ھو

نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی هو

اندر بوٹی مشک مچایا جان پُهلن تے آئی هو

جیوے مرشد کامل باہو جنہے ایہ بوٹی لائی هو

*کلام میاں محمد بخش:*

اول حمد ثناء الہی جو مالک ہر ہر دا

اُس دا نام چتارن والا کسے میدان نہ ہر دا

قدرت تھیں جس باغ بنائے جگ سنسار تمامی

رنگ برنگے بوٹے لائے کجھ خاصی کجھ عامی

قدر نبی دا اے کی جانن دنیا دار کمینے

قدر نبی دا جانن والے سوں گئے وچ مدینے

قدر نبی دا اللہ جانے یا جانن اصحابی

قدر پانی دا مچھلی جانے یا جانے مرغابی

قدر پھلاں دا بلبل جانے صاف دماغاں والی

قدر پھلاں دا گدھ کی جانے مُردے کھاون والی

دنیا تے جو کم نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے

اس بے فیضے سنگی نالوں بہتر یار اکیلے

شیش محل وچ کتا وڑیا تے اوس نوں سمجھ ذرا نہ آوے۔

اوہ جہڑے پاسے جاوے اس نوں کتا ای نظریں آوے

*کلام حافظ محمد لکھوی:*

دو انعام خداوند کیتے اوپر اہل ایماناں

اک قرآن تے دوجا محمد رہبر دوہاں جہاناں

ایہ دوویں جیدے ہتھ آئے تے آیاں کل بھلایاں

جیہڑا ایناں دے پچھے چلیا رحمت جھڑیاں لایاں

*کلام پیر وارث شاہ*

تقدیر اللّٰہ دی نوں کون موڑے تقدیر پہاڑ نوں پٹ دی وے

آدم حوا نوں کڈھ بہشت وچوں تقدیر زمین تے سٹ دی وے

سلیمان جھوکے بھٹھ ماچھیاں دے تختوں چا تقدیر پلٹ دی وے

موسی لنگھیا پار فرعون اتے تقدیر دریا اُلٹ دی وے

یوسف جہیاں پیغمبر زادیاں نوں تقدیر کھوھے وچ سٹ دی وے

دتی زہر تقدیر نے حسن تائیں سیس شاہ حسین دا کٹ دی وے

وارث شاہ نبی دا دند شہید ہویا تقدیر نہ کسے توں ھٹ دی وے

*کلام بابا صمصام:*

کاف کن دیاں منزلاں اجے پہلیاں سن جدوں میرے محمد دی لوئی ہوئی سی

لِکھ دتا سی ختم رسالتاں مٹی آدم دی اجے نہیں گوئی ہوئی سی

آیا سارے جان دا چن بن کے جیدی وچ بائبل پیش گوئی ہوئی سی

صمام زمین نوں بھاگ لگے جیہڑی مدتاں دی پئی موئی ہوئی سی

*کلام شاکر شجاع آبادی:*

نہ بھولا بن نہ وقت ونجا، اے لوگ وڈے ہوشیار ہوندن

منہ تے جی جی کر ویندن، کنڈ پچھوں کئی کئی وار ہوندن

سب کوڑیاں قسماں چیندے ہن، سب کوڑے قول قرار ہوندن

کوئی کہیں دا مخلص نئیں اے شاکر، سب مطلب تئیں یار ہوندن

*قارئین!* کالم کی نزاکت کے پیشِ نظر ہم انہی چند مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ وگرنہ متقدمین، متأخرین اور معاصرین پنجابی شعراء میں ایسے ایسے انمول ہیرے موجود ہیں کہ جن کا کلام مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشرتی اور ثقافتی امور کی اپنے اپنے انداز میں ایسی لاجواب عکاسی کرتا ہے، کہ جسے سُن کر سامعین پر وجد طاری ہو جاتا ہے۔

0 comments

Comments

Rated 0 out of 5 stars.
No ratings yet

Add a rating
bottom of page