top of page
Writer's pictureIDREES CHAUDHARY

کرسمس منانے کے حوالے سے ایک سوال کا جائزہ* تحریر *ڈاکٹر فیض احمد بھٹی*


*کرسمس منانے کے حوالے سے ایک سوال کا جائزہ*


تحریر

*ڈاکٹر فیض احمد بھٹی*


قارئین! سینئر کالم نویس محترم ظفر ڈار کی طرف سے مجھے درج ذیل سطور بھیج کر: ((ایک ڈاکٹر۔۔۔ صاحب کہتے ہیں: ہم مسلمانوں کےلیے بھی کرسمس منانا جائز ہے۔ کیونکہ تمام فقہاء کے ہاں یہ امر مسلمہ ہے کہ مسلمان ہونے کےلیے آنحضرت ﷺ کے علاوہ تمام پیغمبروں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ نیز ان پیغمبروں میں فرق نہ کرنے کا بھی حکم ہے۔ لہذا ہمارے لیے یہ کرسمس کا دن حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کا ایک نہایت مسرت دن ہے۔ اس مبارک دن میں خوشی کے اظہار کے طور پر ہم مسلمان کرسمس بھی منا سکتے ہیں۔ اس سے ایک طرف خود ہمارے اپنے ایمان میں تازگی آئے گی تو دوسری طرف اہل کتاب کےلیے محبت اور احترام کا پیغام ہوگا۔ اور آنحضرت ﷺ سے غیر مسلموں کی عالمی دوری اور اسلاموفوبیا میں بھی کمی آئے گی۔ مگر اس دن کو اپنے اسلامی طریقے پر منائیں۔ اس سے حضرت مسیح علیہ السلام کے خدا کا بیٹا ہونا ہرگز تسلیم نہیں ہو گا بلکہ اتحاد بین المذاہب اور امن کا پرچار ہوگا)

*پوچھا گیا کہ آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟* تو جواباَ جو عرض کیا گیا، وہ افادہ عام کےلیے پیشِ خدمت ہے۔

*مکرمی ڈار صاحب اللہ کریم آپ کو خوش باش رکھے!*

سب سے پہلے یہ بات ذہن نشیں رہے کہ عیسائی برادری کا اپنے عقیدے کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کے دن کا نام "کرسمس ڈے" رکھنا اور اس ایونٹ کو اپنے طور طریقے پر سیلیبریٹ کرنا، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی ولادت با سعادت کے ساتھ قطعاَ کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ کیونکہ مسیح برادری کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام 25دسمبر کو اللہ کی (نعوذ باللہ نقلِ کفر، کفر نہ باشد) بیوی سیدہ مریم علیہا السلام جنہیں وہ "میری" کہتے ہیں کے ہاں پیدا ہوئے جو اللہ کے حقیقی بیٹے ہیں۔ لہذا وہ حضرت عیسی کا یومِ میلاد اللہ کے بیٹے کی پیدائش ہونے کے اعتبار سے سے مناتے ہیں، نہ کہ رسول خدا کی پیدائش کے طور پر۔ بلکہ وہ اپنے لیے یہ بہت بڑا اعزاز اور فخر سمجھتے ہیں کہ ان کا پیشوا حضرت عیسی اللہ کا بیٹا ہے۔

الغرض ان کے تثلیثی عقیدے "یسو اللہ (خاوند)، مسیح عیسی (بیٹا)، اور مقدس مریم (بیوی)" کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو آنجناب ﷺ کی ولادت با سعادت اور 25دسمبر والے اس ایونٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ویسے بھی "کرسمس" کا لفظ اپنے اندر سموئی ہوئی تفصیل سے واضح کرتا ہے کہ یہ دن اللہ تعالی کے بیٹے حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کے بہت بڑے اجتماع کا دن ہے۔ عیسائی فرقے کیتھولک کے مطابق در اصل "کرسمس ڈے" کا مفہوم ہی یہی ہے۔ جبکہ قرآن و حدیث نے عیسائیوں کے اس تثلیثی عقیدے (جس کی بنیاد پر یہ کرسمس ڈے منایا جاتا ہے) کو بڑی وضاحت کے ساتھ متعدد مقامات پر کفریہ عقیدہ قرار دیا ہے۔

لہذا مسلمان کےلیے قطعی طور پر اس عقیدے کو اپنانا جائز نہیں۔ اور نہ ہی ان کی دلجوئی کےلیے کرسمس ڈے وغیرہ کو منانا، یا ان میں شامل ہونا جائز ہے۔ بلکہ اس عقیدے کے حاملین یعنی عیسائیوں کی ان کے عقائد کے لحاظ سے سپورٹ اور حوصلہ افزائی کرنا بھی جائز نہیں۔ کیونکہ کرسمس کی یہ سیلیبریشن کفرِ صریح پر مبنی اور اللہ کی غضبناکی کا سبب ہے۔ آپ خود سوچیے! کہ جو لوگ اللہ کے دشمنوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے چکروں میں ایسی تقریبات کو منا کر کہ جن سے اللہ ناراض و غضبناک ہو،،، بھلا وہ کیسے مقبولیت حاصل کر پائیں گے، یا کیسے محبت بڑھا پائیں گے، ہر گز ایسا ممکن نہیں!

اور دوسری یہ بات کہ "جی ہمارے نبی ﷺ کی ولادت اور حضرت عیسی کی ولادت کے حوالے سے خوشیاں ملتی جلتی ہیں، یا حضرت عیسی پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے،،،،؛ اس لیے ان کی کرسمس منانا اور اس میں جانا جائز ہے"۔ تو ان کی یہ بات حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ جس کا شریعت اسلامیہ میں کوئی ثبوت نہیں۔ بلکہ آئمہ خمسہ (امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام مالک، امام شافعی، امام جعفر صادق) میں سے کسی بھی امام سے اس کی تائید نہیں ملتی۔ کیونکہ پورا قرآن مجید عقیدہ تثلیث اور اس جیسے دیگر عقائدِ نصاری کی سختی کے ساتھ نفی اور تردید کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے ذہن میں یہ بات بھی ہونی چاہیے کہ رسول کریم ﷺ نے کفار کے "شعائر" (یعنی جو ان کے مذہبی لحاظ سے بنیادی عقائد و تہوار ہیں) کے ساتھ کسی طرح کی بھی مشابہت اختیار کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔ جیسا کہ عیسائیوں کا کرسمس منانا، ان کی تثلیثی نشانی ٹی لٹکانا یا ان کے مذہبی تہواروں میں اظہار عقیدت کےلیے شمولیت کرنا۔

رہی بات حضرت عیسی پر ایمان کی، تو اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلام کے مطابق اس بندے کا ایمان ہی مکمل نہیں، جو حضرت عیسی علیہ السلام کے نبی و رسول ہونے پر کامل یقین نہ رکھے۔ لیکن یہاں یاد رہے کہ یہ ایمان انہیں اللہ کی طرف سے رسول و نبی بنا کر بھیجے جانے پر ہے، اور یہ بھی ایمان کہ وہ باپ کے بغیر پیدا ہوئے، اور وہ سولی نہیں چڑھے بلکہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں، اور ان کی ماں مریم دنیا کی پاکیزہ ترین عورت تھیں، ان کو یہ بیٹا اللہ نے معجزے کے ذریعے عطا فرمایا تھا۔ مذکورہ باتوں پر تو ہمارا مکمل اور مضبوط ترین ایمان ہے۔ بلکہ ہمارے نزدیک وہ نہ صرف نبی و رسول ہیں بلکہ عالی عزم و عالی منصب پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ مگر ہمارے اس ایمان و محبت کو 25دسمبر کی کرسمس اور اس کی سیلیبریشن کے ساتھ خلط ملط کرنا اور اس سے کرسمس منانے یا اس میں شمولیت کا جواز نکالنا،،، یہ قرآن مجید اور فرمان رسول ﷺ کی نصوصِ صریحہ کے خلاف اور ان کی قبیح توجیہات کے مترادف ہے۔ کرسمس میں بطور عبادت اس بات کا بھی برملا اقرار و اظہار کیا جاتا ہے کہ یسو جی (حضرت عیسی) ہمارے گناہوں کے کفارے میں سولی چڑھ کر ہمیں بخشوا گئے ہیں۔ یہ عقیدہ بھی سراسر خلاف شرع ہے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر کوئی حکومتی نمائندہ مثلاَ وزیر، ڈی سی، اے سی وغیرہ جو ان اقلیتوں کی بھی دیکھ بھال کے ذمے دار ہیں یا سیکورٹی افسران جو ڈیوٹی پر مامور ہیں، تو وہ اس موقع پر ان کے ساتھ حسبِ ضرورت و تقاضہ تعاون کر سکتے ہیں، ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ وہ بھی صرف اس لیے کہ یہ اس ملک کے باشندے ہیں اور سلطنت کے ساتھ ان کے معاہدہ جات طے شدہ ہیں، جن کی حکومت پابند ہے۔ لہذا پاکستانی شہری ہونے کے ناطے ان کو سہولیات دینا، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا، ان کی مذہبی تقریبات کے حوالے سے انہیں سیکیورٹی مہیا کرنا یا ان کو مقررہ کوٹے کے مطابق مالی تعاون فراہم کرنا جائز ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں۔

لیکن ان کے مذہبی شعائر و تقریبات میں اگر کوئی نمائندہ اپنی انتظامی ذمے داری کی بجائے عقیدت سمجھ کر، یا مذہبی ہمدردی کے طور پہ شریک ہوتا ہے، یا ان کو مبارک بادیں پیش کرتا پھرے، تو وہ بھی ان کے عقائد میں برابر کا شریک گردانا جائے گا۔ مطلب ان کے مذہبی شعائر میں وہ بطور ایڈمنسٹریٹر انکے ساتھ کوآپریٹ کرے گا نہ کہ بطور مذہبی عقیدت و محبت کے۔ والسلام

0 comments

Kommentare

Mit 0 von 5 Sternen bewertet.
Noch keine Ratings

Rating hinzufügen
bottom of page