*بانی پاکستان زعمائے عالم کی نظر میں
* بقلم
ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح (رحمۃ اللہ علیہ) کی شخصیت اور قائدانہ بصیرت و صلاحیت کے پیرو کار ہونے کا دعوی تو پاکستان کے حکمرانوں سمیت سیاسی جماعتوں کے قائدین خصوصی اور مذہبی و سماجی تنظیموں کے قائدین عمومی طور پر ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ مگر کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا لیڈر ہے جو قائد اعظم کے برابر ہونا تو در کنار، کیا ان کا چوتھائی بھی معلوم ہوتا ہے؟! پاکستان کے بیشتر حکمرانوں سمیت، نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کے دعوے داروں کے کردار اور اطوار کا اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے، تو اس کا جواب نفی میں ہی ملتا ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ راقم السطور کے والد گرامی کہا کرتے تھے کہ قائد اعظمؒ کے اندر کچھ ایسی خصوصیات ودیعتِ خداوندی تھیں کہ جن کے پیش نظر وہ ایک بار بھی جیل نہ گئے۔ مطلب قائد کو کبھی بھی قید نہیں ہوئی۔ حالانکہ انہوں نے مسائلستان کے ایسے سمندر میں چھلانگ لگا رکھی تھی کہ جس کی چاروں طرف طوفان برپا تھا۔وہ علم و عمل، دیانت و امانت، اصول داری و خود داری اور اسلامی اقدار کا مرقع تھے۔ ان کے اندر وہ سب خوبیاں موجود تھیں جو میرِ کارواں کے رختِ سفر کےلیے از حد ضروری ہوتی ہیں۔ان کے نحیف جسم میں ہمہ وقت پاکستان بنانے اور اسے باحسن طریق چلانے کےلیے دم گرم اور جان بے تاب کا لاوا ابلتا رہتا تھا۔ سچ پوچھیے شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا کہ جس کے غیر متزلزل یقینِ ایمانی اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں سے ہمکنار کیا۔قارئین! ان کی اعلی شخصیت اور بالا کارکردگی کا اندازہ زعمائے عالم کے درج ذیل اقوال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:1(علامہ سید سلیمان ندوی) عظیم سیرت نگار برِ صغیر پا ک و ہند کے معروف اہل علم علامہ سید سلیمان ندوی نے (1916ء) میں مسلم لیگ لکھنئو کے اجلاس میں قائدِ اعظم کی شان میں بایں الفاظ نذرانہ عقیدت پیش کیا:”اک زمانہ تھا کہ اسرار دروں مستور تھےکوہ شملہ جن دنوں ہم پایہ سینا رہاجبکہ داروئے وفا ہر دور کی درماں رہیجبکہ ہر ناداں عطائی بو علی سینا رہاجب ہمارے چارہ فرما زہر کہتے تھے اسےجس پہ اب موقوف ساری قوم کا جینا رہابادۂ حبِ وطن کچھ کیف پیدا کر سکےدور میں یونہی اگر یہ ساغر و مینا رہاملتِ دلبر کے گو اصلی قوا بیکار ہیںگوش شنوا ہے نہ ہم میں دیدۂ بینا رہاہر مریضِ قوم کے جینے کی ہے کچھ کچھ امیدڈاکٹر اس کا اگر مسٹر علی جینا رہا”۔2(مولانا ظفر علی خان) "تاریخ ایسی مثالیں بہت کم پیش کر سکے گی کہ کسی لیڈر نے مجبور و محکوم ہوتے ہوئے انتہائی بے سرو سامانی اور مخالفت کی تند و تیز آندھیوں کے دوران دس برس کی قلیل مدت میں ایک مملکت بنا کر رکھ دی ہو”۔3(علامہ عنایت اللہ مشرقی) خا کسار تحریک کے بانی اور قائدِ اعظم کے انتہائی مخالف علامہ مشرقی نے قائد کی موت کا سن کر یوں فرمایا: "اس کا عزم پائندہ و محکم تھا۔ وہ ایک جری اور بے باک سپاہی تھا، جو مخالفوں سے ٹکرانے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا تھا”۔4(لیاقت علی خان) پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نوابزادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا: "قائدِ اعظم ان برگزیدہ ہستیوں میں سے تھے جو کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تاریخ ان کا شمار عظیم ترین ہستیوں میں کرے گی”۔5(علامہ اقبال) اپنے ایک خط میں علامہ اقبال نے قائد اعظم کو یہ لکھا: "کہ برطانوی ہند میں اس وقت صرف آپ ہی ایسے لیڈر ہیں جن سے رہنمائی حاصل کرنے کا حق پوری ملتِ اسلامیہ کو حاصل ہے” علامہ اقبال کی بیماری کے دوران جب جواہر لال نہرو ان کی عیادت کو آئے تو دورانِ گفتگو نہرو نے حضرت علامہ سے کہا: "حضرت آپ اسلامیانِ ہند کے مسلمہ اور مقتدر لیڈر ہیں کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ آپ اسلامیانِ ہند کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لیں” تو حضرت علامہ اقبال نے فرمایا: جواہر لال! ہماری کشتی کا سالار صرف مسٹر محمد علی جناح ہے میں تو اس کی فوج کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں”۔6(مفتی اعظم فلسطین سید امین) قائدِ اعظم دسمبر 1946ء میں لندن سے واپسی پر قاہرہ میں ٹھہرے۔ انہی دنوں مفتی اعظم فلسطین بھی قاہرہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک تقریب میں انہوں نے قائد کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا: "کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فلسطین کے بدلے میں پاکستان کا عظیم خطہ اور قائد اعظم کی شکل میں ایک عظیم لیڈر عنایت فرمایا ہے”۔7(مولانا ابوالکلام آزاد) "قائدِ اعظم محمد علی جناح ہر مسئلے کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے تھے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے”۔8(فخر الدین علی احمد سابق صدر بھارت) "میں قائدِ اعظم کو برطانوی حکومت کے خلاف لڑنے والی جنگ کا عظیم مجاہد سمجھتا ہوں”۔9(کلیمنٹ اٹیلی وزیرِ اعظم برطانیہ) "نصب العین پاکستان پر ان کا عقیدہ کبھی غیر متزلزل نہیں ہوا۔ اور اس مقصد کےلیے انہوں نے جو انتھک جد و جہد کی وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی”۔10(مسولینی وزیرِ اعظم اٹلی) "قائدِ اعظم کےلیے یہ بات کہنا غلط نہ ہو گی کہ وہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت تھے جو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے”۔11(برٹرینڈرسل برطانوی مفکر) "ہندوستان کی پوری تاریخ میں کوئی بڑے سے بڑا شخص ایسا نہیں گزرا جسے مسلمانوں میں ایسی محبوبیت نصیب ہوئی ہو”۔12(مہاتما گاندھی) "جناح کا خلوص مسلمہ ہے۔ وہ ایک اچھے آدمی ہیں۔ وہ میرے پرانے ساتھی ہیں۔ میں انہیں زندہ باد کہتا ہوں”13(مسز وجے لکشمی پنڈت) "اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور دو سو ابو الکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک لیڈر محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا”۔14(ماسٹر تارا سنگھ سکھ رہنما) "قائدِ اعظم نے مسلمانوں کو ہندؤوں کی غلامی سے نجات دلائی۔ اگر یہ شخص سکھوں میں پیدا ہوتا تو اس کی پوجا کی جاتی”۔15(چرچل برطانوی وزیرِ اعظم) "مسٹر جناح اپنے ارادوں اور اپنی رائے میں بے حد سخت ہیں۔ ان کے رویے میں کوئی لچک نہیں پائی جاتی۔ وہ مسلم قوم کے مخلص رہنما ہی نہیں بلکہ سچے وکیل بھی ہیں”۔16(مسز سروجنی نائیڈو) مسز سروجنی نائیڈو بلبلِ ہند اور سابق گورنر یو پی کے قائدِ اعظم کے متعلق تاثرات: "ایک قوم پرست انسان کی حیثیت سے قائدِ اعظم کی شخصیت قابلِ رشک ہے۔ انہوں نے ذاتی اغراض کے پیشِ نظر کسی شخص کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اپنی بے لوث خدمت کے عوض ہندوستان کے مسلمانوں کے لیڈر ہیں۔ ان کا ہر ارادہ ہر مسلمان کےلیے حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے. ان کا ہر فیصلہ مسلمانوں کےلیے حتمی حکم ہوتا ہے جس کی انتہائی خلوص کے ساتھ لفظ بہ لفظ تعمیل کی جاتی ہے”۔17(پروفیسر اسٹینلے) "جناح آف پا کستان” کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں: "بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں، اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں، اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے! محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے کر دکھائے”۔قارئین! ہم دعا گو ہیں کہ اللہ کریم بانی پاکستان کے درجات بلند فرمائے۔ اور پاکستان میں کوئی دوسرا محمد علی جناح پیدا فرمائے جو پاکستان کو صحیح طور پر اسلامی اور فلاحی و رفاہی مملکت بنائے۔ اور پاکستانیوں کے دکھوں کا مکمل مداوہ بھی کرے آمین!



















