فوج: نوکری نہیں، یہ وفا کا عہد و پیماں ہے
بقلم
ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

یہ کوئی عام بات نہیں، نہ ہی عام فہم حقیقت، کہ فوج کو محض نوکری سمجھ لیا جائے۔ یہ وہ غلط فہمی ہے، جو قومیں زوال کے دہانے پر کھڑی ہو کر پال لیتی ہیں۔ فوج نوکری نہیں ہوتی، کیونکہ نوکری وقت مانگتی ہے اور فوج زندگی مانگتی ہے۔
فوج آٹھ گھنٹوں پہ مشتمل کوئی مشقت نہیں، یہ تو چوبیس گھنٹے کی عبادت و ریاضت ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جہاں انسان اپنے نام کے ساتھ اپنا وجود بھی مٹا دیتا ہے، اور اپنے رب کے حضور اور اپنی ریاست کے نام اپنی سانسیں گروی رکھ دیتا ہے۔
نوکری وہ ہوتی ہے، جہاں فاصلے ناپے جاتے ہیں، اوقات گنے جاتے ہیں، اور مفادات تولے جاتے ہیں۔
فوج وہ ہوتی ہے جہاں فاصلے قبروں تک جا پہنچتے ہیں، اوقات اذانوں سے جڑ جاتے ہیں، اور مفاد کا نام صرف اور صرف فرض شناسی رہ جاتا ہے۔
نوکری میں سہولتیں مانگی جاتی ہیں، فوج میں آزمائشیں عطا ہوتی ہیں۔
یہاں گھر چھوٹ جاتے ہیں، صحن ویران ہو جاتے ہیں، اور ماں کی آنکھیں دروازے پر ٹھہر جاتی ہیں۔ جس دن بیٹا فوج کی وردی پہنتا ہے، اسی دن وہ اپنے ہی گھر کا مسافر و مہمان بن جاتا ہے۔ یہاں دشت بھی نصیب ہیں اور زخم بھی؛ یہاں راتیں لمبی اور راستے بے چراغ ہوتے ہیں، اور ہر قدم پر موت مد مقابل کھڑی ملتی ہے۔
یہاں تنخواہ کے ساتھ لاشیں ملتی ہیں، کفن کے بغیر جنازے ملتے ہیں، اور ماں کی دعا کے ساتھ بیٹے کی شہادت کی خبر بھی۔
سوچو ذرا! کون ہے جو چند سکوں کے بدلے اپنا خون پیش کر دے!؟ کون ہے جو ایک حلف میں اپنی پوری زندگی اللہ اور وطن کے نام لکھ دے!؟ کون ہے جو اپنے بچوں کو اللہ کے آسرے پہ چھوڑ کر وطن اور اہلِ وطن کے تحفظ کی خاطر اپنی چھاتی گولیوں کے سامنے دھر دے!؟ اسے موت کی دہشت ڈرا سکے نہ کسی وحشی کی وحشت۔
ڈاکٹر شفا بانٹتا ہے، استاد علم بانٹتا ہے، انجینیئر تعمیر پیش کرتا ہے۔ یہ سب عظیم پیشے ہیں۔ مگر فوجی!؟ فوجی اپنی ذات بانٹتا ہے، اپنا خون پیش کرتا ہے۔ فوجی پن اپنی مٹی سے ایسا نکاح ہے جس کا مہر جان ہے، اور جس میں طلاق نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ کیونکہ فوجی وردی اتارتا ہے، فرض شناسی نہیں اترتی۔ ایک دن کا فوجی بھی، مرتے دم تک فوجی ہی رہتا ہے۔ فوجی خدمت عظیم ترین عبادت ہے، اور عبادت جنون مانگتی ہے۔ یہ وہ جنون ہے جس کے متعلق اقبال کہہ گئے:
✓ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
فوجیوں کی مائیں وہ ہستیاں ہیں، جن کا صبر عرش سے تول کر نازل کیا جاتا ہے۔ یہ مائیں وقت سے پہلے بوڑھی ہو جاتی ہیں، ہر ایمبولینس کی آواز پر دل کانپتا ہے، اور ہر اندیشے پر آنکھیں سجدوں میں رو رو کر بہہ جاتی ہیں۔ یہ وہ مائیں ہیں جن کی گودیں شہادت کے لیے وقف ہوتی ہیں، اور جن کی دعائیں فرشتوں کے کاندھوں پر سفر کرتی ہیں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے شہادت کی عظمت کو یوں بیان فرمایا کہ شہید کا خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اسے مغفرت عطا کر دی جاتی ہے، اسے جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے، وہ قبر کے عذاب اور قیامت کی ہولناکی سے محفوظ رہتا ہے، اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جاتا ہے، اور اس کی شفاعت اس کے رشتہ داروں کے حق میں قبول کی جاتی ہے۔ (ترمذی شریف)۔ بلکہ صحیح حدیث کے مطابق شہید اپنے 70 افراد خانہ اور عزیز و اقارب کو اپنی سفارش سے جنت لے جائے گا۔ یہی وہ ایمان ہے جو فوجی کو اندھیری راتوں میں روشنی دیتا ہے، یہی وہ یقین ہے جو اسے موت سے بے خوف رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بعد اگر اس سرزمین پاکستان کی حفاظت پر کوئی پہرے دار مقرر ہے، تو وہ یہی فوج ہے۔ اس کا نظم، اس کا ضبط، اور اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول ایسا مضبوط ہے کہ دشمن خواہ اندر ہو یا باہر، نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
اور آخر میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ
یہ فوج کوئی ادارہ نہیں، یہ حصن الحصین ہے۔
یہ فوج کوئی پیشہ نہیں، یہ ایمانی اور جانی خدمت کا روشن ترین مینار ہے۔ بلکہ کہوں گا کہ میری یہ فوج، میری جان اور پہچان ہے، کیونکہ اس سبز ہلالی پرچم کے لہرانے کے پیچھے اور وطن عزیز اور اس کے باسیوں کے چہچہانے کے پیچھے میری فوج اور اس کی قربانیاں پنہاں ہیں۔
پاکستان زندہ باد
پاک فوج پائندہ باد



















