
آہ ہمارے والد گرامی حضرتِ علامہ محمد مدنی*
*نگارشات از*خالدہ مدنی دختر علامہ محمد مدنی
ماں کے بعد دنیا میں صرف باپ ہی ایک ایسی مہربان ہستی ہے جو اپنی اولاد کو عزیز از جان رکھتی اور انہیں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہے۔ اور پھر اس مقصد کےلیے اپنی بساط سے بڑھ کوشش بھی کرتی ہے۔ اکثر باپوں کی یہ بساط "ربنا آتنا فی الدنیا” کی روشنی میں دنیاوی حدود کے دائرے ہی میں رہتی ہے۔ مگر ہمارے والد محترم اس اعتبار سے مختلف تھے کہ انہوں نے اپنے دائرہ کار میں "فی الدنیا حسنۃ” کے ساتھ ساتھ "وفی الآخرۃ حسنۃ” کو شامل کر کے ایک کامل باپ ہونے کا ثبوت دیا۔ان کی شفقتوں کا معاملہ صرف ہم تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ

خاندان بھر ہمیشہ ان کی صلہ رحمی والی طبیعت کے زیرِ اثر رہا۔ ابا جی جب تک حیات رہے انہوں نے ہر فرد کو نہ صرف اپنے مزاج کے ہر زاویے سے طمانیت کا احساس دلایا؛ بلکہ پورے خاندان میں یگانگت و متانت کی ایک معطر فضا بھی قائم رکھی۔ ایسا گمان ہوتا تھا کہ سب افرادِ خانہ ایک ہی مالا میں پروئے ہوئے ہیں۔ آپ رشتے داری اور تعلقات کو جوڑنے پر یقین رکھتے تھے۔ خود بھی سب سے گُھل مل کر رہتے اور رشتے داروں کو بھی آپس میں جڑ کر رہنے کی تلقین کرتے۔خدا گواہ ہے کہ زندگی بھر انہوں نے اپنے لواحقین میں سے کسی کے بارے میں بھی دل میں بغض رکھا اور نہ ہی اسے اس کی جائز ضروریات سے محروم رکھا۔ آپ اس درخت کی مانند تھے جو اپنے پاس آنے والوں کو سایہ بھی دے اور پھل بھی دے۔یقین جانیے! کسی رشتے دار کی معمولی سی تکلیف آپ کو بے چین کر دیتی تھی۔ فوراً اس کا احوال دریافت کرتے، اس کی ڈھارس بندھاتے، ممکنہ حد تک اس کی تکلیف کا ازالہ بھی کرتے۔ اپنی پوری فیملی میں آپ کے نزدیک جو سب سے زیادہ عزت مآب ہستی تھی وہ آپ کی والدہ تھیں۔ آپ اپنی والدہ کے بہت فرمانبردار تھے۔ محبت بھری نظروں سے انہیں دیکھتے۔ ان کی طبیعت ذرا سی ناساز ہوتی تو دل و جان سے ان کی خدمت میں جُت جاتے اور بدلے میں ڈھیروں دعائیں سمیٹتے۔ بیرون ملک جب بھی جانا ہوتا تو ماں کی خدمت میں ضرور پیش ہوتے اور انہیں آگاہ کرتے۔ اور جب دورے سے واپس آتے تو اولین فریضہ ماں کے پاس جانے کو خیال کرتے۔ بھلے ہی سب بچے ماں کو پیارے ہوتے ہیں مگر ایک ایسا ضرور ہوتا ہے جو خدمت اور اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے ماں کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے۔ ہمارے والد گرامی کے متعلق دادی محترمہ دل میں کچھ اسی قسم کی محبت رکھتی تھیں۔ ان کی زبان پہ سب بھائیوں کی نسبت زیادہ تر نام والد گرامی ہی کا آتا۔اپنی والدہ کے ساتھ ساتھ اپنی کلوتی بہن کی بھی آپ بہت تکریم کرتے تھے۔ گاہے گاہے اس کا حال احوال پوچھتے۔ اس کے دکھ سکھ میں ہمیشہ برابر کے شریک رہے۔ دادا جان کی وفات کے بعد والد گرامی نے زندگی بھر کوشش کی کہ اپنی بہن کو باپ کی کمی محسوس نہ ہو۔ بیٹیاں تو ہمیشہ آپ کا لخت جگر، نور نظر رہیں۔ انہیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں آنے دی۔ آپ انہیں گھر میں خدا کی رحمت سمجھتے تھے اور بیٹوں سے بڑھ کر انہیں عزیز رکھتے تھے۔ بڑی بیٹی ہونے کے ناطے مجھے اپنے والد سے دوسروں کی نسبت ایک خاص وُقعت حاصل تھی، ایک خاص عزت ملتی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی ان کے چہرے پہ میرے لیے جو شفقت جھلکتی، جو وقار چھلکتا اور ان کی آنکھوں میں جو حیا اُمڈتی، اسے میں تا موت نہیں بھول پاؤں گی۔ آج بھی گھر میں چلتے پھرتے ان کی یادوں کی پرچھائیاں میرے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ان کے بنا گھر کے در و دیوار سے اداسی چھن چھن کر باہر آتی محسوس ہوتی ہے۔ باپ کے سایہ شفقت تلے گزرا میرا ماضی میرے لیے انمٹ نقوش کی طرح ہے۔

مجھے یاد ہے جب والد صاحب کی رحلت ہوئی تو دادی جان نے اپنے سب بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ میرے "محمد مدنی” کے جانے کے بعد تم پہلے یتیم ہوئے ہو اور اس کی اولاد بعد میں یتیم ہوئی ہے۔ دراصل کہنا وہ یہ چاہتی تھیں کہ میرے بڑے بیٹے اور آپ کے بڑے بھائی نے اپنی حینِ حیات تم سب کو ایک باپ کی شفقت دی، ایک باپ کا پیار دیا۔ تمہارے باپ کے جانے کے بعد وہ تمہارے لیے شجرِ سایہ دار بنا رہا۔اور اس باب میں کوئی اشتباہ بھی نہیں کہ ابو اپنے سب بھائیوں کا خیال اپنی اولاد ہی کی طرح رکھتے تھے۔ وگرنہ اس ملک میں باپ کے مرنے کے بعد بڑا بیٹا اپنے ہی سگوں کو جس طرح پائے استحقار سے دھتکارتا اور وراثت سے محروم کرتا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہمارے گرد و پیش میں نوحہ کرتی ایسی ہزاروں داستانیں ہیں جو خبر دیتی ہیں کہ کس طرح انسان اختیار ملتے ہی "فی احسنِ تقویم” کے رفیع درجے سے گِر کر "اسفلَ سافلین” کی پستیوں میں جا پہنچتا ہے۔ وہ بھائی جو ایک ہی کوکھ میں پلے، ایک ہی گود میں کھیلے اور ایک ہی کٹورے میں جنہوں نے کھایا پیا، موقع ملتے ہی بڑا ان سے یوں آنکھیں پھیر لیتا ہے کہ جیسے کسی جنم میں ان سے رشتہ کبھی تھا ہی نہیں۔ پل بھر میں خون سفید ہو جاتا ہے۔مگر دادا جی کی وفات کے بعد والد صاحب نے ہمارے خاندان میں ایسی کسی رِیت کو جنم نہیں لینے دیا، ایسی کسی رسم کا گزر ہمارے ہاں نہیں ہوا۔والد مرحوم حقیقی معنوں میں اعلیٰ ظرف اور ستھرے مزاج کے انسان تھے۔ سچ یہ ہے کہ وہ حرص و ہوس کی دنیا کے تھے ہی نہیں۔نماز کے حوالے سے آپ بہت سخت تھے۔ فجر کی نماز میں گھر بھر کو جگاتے۔ ہم سب بہن بھائیوں سے اکثر نماز ہی کا پوچھتے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے: کہ جسکی نماز آباد اس کا سب کچھ آباد اور جس کی نماز برباد اس کا دین و دنیا برباد ہے۔ کیونکہ یہ بندے پہ خدا کا پہلا حق ہے۔ جو اللہ کا یہ حق ادا کرنے میں سُستی کرتا ہے وہ گویا اللہ کی قدر ہی نہیں کرتا۔ جمعہ کے روز خصوصاً تلقین کرتے کہ سب گھر والے جامع مسجد چوک اہلحدیث میں جا کر جمعہ پڑھیں۔ اور ہمیں اکثر و بیشتر جمعہ کےلیے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔آپ 18 فروری 2002ء کو ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ دعا ہے اللہ کریم ان کی قبر کو نور سے بھر دے، یومِ عقبیٰ انہیں عرش عظیم کا سایہ اور جنت میں انہیں "الفردوس” نصیب کرے آمین!