چیف ایڈیٹر:طارق محمود چودھری  ایڈیٹر: مظہر اقبال چودھری  مینیجنگ ایڈیٹر: ادریس چودھری

جون 16, 2025 8:11 صبح

سال کے قیمتی اور افضل ترین ايام*(ذُو الحجہ کا ابتدائی عشرہ) تحریر//ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

*سال کے قیمتی اور افضل ترین ايام*(ذُو الحجہ کا ابتدائی عشرہ)تحریرڈاکٹر فیض احمد بھٹی …اللہ تعالی نے ذوالحجہ کو حُرمت والے چار مہینوں میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے پہلے دس دنوں کو باقی پورے سال کے تمام ایام پر ایسی فضیلت و فوقیت بخشی ہے کہ تاریخ اسلامی میں جس کی مثال نہیں ملتی۔*صحیح بخاری* کے مطابق رسول مکرم ﷺ نے فرمایا: {ان دس دنوں میں کیے گئے نیک اعمال سے زیادہ اللہ تعالی کے ہاں کوئی بھی دوسرا عمل محبوب نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہيں؟ تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ہاں جہاد بھی نہيں،،،، مگر وہ شخص جو اپنا مال اور جان لے کر نکلا اور پھر واپس نہیں آیا، بلکہ شہید ہوگیا}۔ *مذکورہ* حدیث کے علاہ کئی دوسری احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن باقی سال کے تمام دِنوں سے بہترین اور افضل ترین ہيں۔ حافظ ابنِ کثیر فرماتے ہیں: اس میں کسی بھی قسم کا کوئی استثنا نہیں، حتیٰ کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کے دن بھی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی برابری نہيں کر سکتے۔ *ہاں* رمضان المبارک کے آخری عشرے کی دس راتیں اپنی جگہ پر افضل ترین راتیں ہیں؛ کیونکہ ان میں لیلۃ القدر کی رات شامل ہے، جو ایک ہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے۔ مگر ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن علی الاطلاق افضل ترین ہیں۔*قارئین!* ان دس دنوں کی فضيلت کئی صورتوں میں واضح ہوتی ہے، جن میں سے چند ایک ذيل میں پیش خدمت ہيں: 1اللہ نے قران مجید کی سورۃ الفجر میں ان دس دنوں کی قسم کھائی ہے۔ اور اللہ تعالی کا کسی چيز کی قسم کھانا اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کے عظیم المرتبت ہونے پر واضح دلیل ہے۔ 2نبی کریم ﷺ نے بھی اس بات کی گواہی دی ہے کہ یہ دس دن سال بھر کے تمام دِنوں سے افضل ترین ایام ہیں۔ جیسا کہ اوپر حدیث بیان ہو چکی ہے۔ 3نبی کریم ﷺ نے ان ایام میں نیک اعمال کرنے پر اپنی امت کو کافی ترغیب بھی دی ہے۔ 4نبی ﷺ نے ان ایام میں اللہ کی حمد و ثنا زيادہ سے زيادہ کرنے اور تکبیرات پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ جیسا کہ مسند احمد میں ہے کہ: {اللہ تعالی کے نزدیک ان دس دِنوں سے زیادہ افضل اور عظیم ایام کوئی نہيں۔ اور نہ ہی ان میں کیے گئے اعمال کے علاوہ کوئی اور اعمال زيادہ محبوب ہيں۔ لہٰذا ان ایام میں لا الہ الا اللہ، اور اللہ اکبر بکثرت پڑھو، اللہ کی حمد و ثنا بھی بکثرت بیان کرو!۔ 5اس عشرے میں یوم عرفہ (9 ذوالحجہ) کا دن بھی موجود ہے۔ اور یہ ایسا دن ہے جسے یوم مشہود کہا جاتا ہے۔ جس میں اللہ نے دین اسلام کو مکمل فرمایا۔ اس دن کا روزہ رکھنے سے دو برس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ 6اس عشرے میں یوم النحر (دس ذی الحجہ) یعنی عید الاضحیٰ کا دن بھی شامل ہے۔ جو مطلقاً سال بھر کے تمام دنوں میں سے سب سے ‏عظيم اور محبوب ترین دن ہے۔ جس میں ایسی عبادات، طاعات، صالحات اور طیبات اکٹھی ہو جاتی ہيں، جو کسی اور دن میں جمع نہیں ہوتیں۔ 7اس عشرے میں قربانی اور حج جیسی عظیم ترین عبادات بھی موجود ہیں، جن کا کوئی ثانی نہیں۔*الغرض:* عشرہ ذوالحجہ کا نصیب ہونا اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ *لہٰذا* ہمیں اس کی اس طرح قدر کرنی چاہیے، جیسے سلف صالحین اور نیک لوگوں نے اس کی قدر کی۔ سو مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس نعمت کا احساس و پاس کریں۔ اس فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے ان دس دنوں میں زيادہ سے زيادہ صالح اعمال کریں۔ اور نہایت چستی کے ساتھ عبادتِ الٰہی میں گامزن رہیں۔*قارئین!* ذوالحجہ کے ان عظیم المرتبت دس دنوں میں ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ درج ذيل اعمال خیر ضرور کرے:*1تکبیرات:* ان دس ایام میں مساجد، راستوں، گھروں بلکہ ہر جگہ اللہ تعالی کا ذکر کرنا چاہیے۔ اونچی آواز سے تکبیرات مثلاً: لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ وغیرہ کہنا چاہیے۔ تاکہ اللہ تعالی کی عبادت کا اظہار اور اس کی تعظیم کا علانیہ اقرار ہو۔ یاد رہے! مرد حضرات تو اونچي آواز سے تکبیرات کہيں، مگر عورتیں پست آواز میں ہی کہیں گی، کیونکہ عورت کےلیے اونچی آواز میں تکبیرات کہنا شرعاََ ممنوع ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہما کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ دونوں ان دس ایام میں بازاروں میں نکل کر اونچی آواز کے ساتھ تکبیریں کہا کرتے تھے۔ اور لوگ بھی ان کی تکبیروں کی وجہ سے تکبیریں کہا کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ سُن کر لوگوں کو بھی تکبریں پڑھنا یاد آ جاتا اور ہر کوئی اپنے طور پہ تکبریں کہنا شروع کر دیتا۔ مگر اس سے یہ ہرگز مراد نہيں کہ سب لوگ اکٹھے ہوکر بیک آواز اجتماعی تکبیریں کہتے تھے؛ کیونکہ ایسا کرنا شرعاً ثابت نہيں ہے۔ *تکبیر كےلیے جامع* الفاظ کچھ یوں منقول ہیں: {اللهُ أكبر اللهُ أكبر، لا إلهَ إلَّا الله واللهُ أكبر، اللهُ أكبر، ولله الحَمْد،} اور {اللهُ أكبرُ كبيرًا، والحمدُ للهِ كثيرًا، وسبحانَ اللهِ بكرةً وأصيلًا}۔ علاوہ ازیں بھی مختلف الفاظ میں تکبیرات ثابت ہیں۔*2حج و عمرہ کی ادائیگی:* ان دس دنوں میں انتہائی افضل اور اعلی کام بیت اللہ کا حج و عمرہ ادا کرنا ہے۔ *لہذا* جسے بھی اللہ تعالی اپنے گھر جانے کی مالی توفیق بخشے تو وہ مسنون طریقے سے حج ضرور ادا کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: {حج مبرور کا اجر یقیناً جنت ہے}۔*3نو ذوالحجہ کا روزہ:* ان دنوں میں 9 ذوالحجہ کا روزہ رکھنا مسنون ہے۔ جس سے 2 سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔*4قربانی:* عشرہ ذی الحجہ کے اعمال صالحہ میں قربانی کے ذریعے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا اعلیٰ ترین عبادت کا مظہر ہے۔ لہٰذا جسے استطاعت ہو اسے قربانی ضرور کرنی چاہیے۔ بخاری شریف کے مطابق 10 ذوالحجہ یعنی عید الأضحٰی والے دن اللہ کے ہاں قربانی کرنے سے زیادہ افضل ترین کوئی بھی عمل نہیں۔*5سچی توبہ:* ان دس دنوں میں جو عمل زیادہ توجہ طلب ہے، وہ اللہ تعالی کے سامنے اپنے گناہوں سے توبہ کرنا ہے۔*6ان دس ایام میں عمومی نیکیوں کی کثرت:* جس کےلیے حج کرنا ممکن نہيں، اسے چاہیے کہ وہ ان ایام و اوقات کو اللہ تعالی کی اطاعت میں گزارتے ہوئے نماز پنجگانہ کے ساتھ ساتھ نوافل، تلاوت قرآن، ذکر اذکار، صدقہ و خیرات، والدین سے حسن سلوک، نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے، اور اسی طرح کے دیگر خیر کے کاموں کا خاص الخاص اہتمام کرے۔*خلاصہ کلام* خیر و بھلائی کے اس عظیم الشان موسم میں ہر مسلمان کو بڑھ چڑھ کر اطاعت و فرمانبرداری میں مصروف رہنا چاہیے۔ بھرپور انداز میں نیک اعمال کرنے چاہیں۔ کیونکہ یہ گنتی کے چند ایام ہوتے ہیں جو بہت ہی جلد گزر جاتے ہیں۔ اور ان ایام کا کوئی بدل بھی نہيں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

متعلقہ خبریں

جہلم// ادریس چودھری// سنت ابراھیمی (قربانی)جو کہ نبی کریم ﷺ نے ادا کی ہم قربانی کر کے آپ ﷺ کی سنت ادا کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں جانور ذبح کر کے اس اجر عظیم میں حصہ پا لیتے ہیں جو حضرت ابراھیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کی گردن پر چھر ی چلا کر پایا۔شرط یہ ہے کہ ہمارا یہ عمل خالص نیت کے ساتھ ہوصرف اور صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو۔اپنی خواہشاتِ ذاتی کو قربان کرکے احکام خداوندی کو بجا لانا اصل قربانی ہے۔ امیر عبدالقدیر اعوان

تازہ ترین خبریں

جہلم// ادریس چودھری// سنت ابراھیمی (قربانی)جو کہ نبی کریم ﷺ نے ادا کی ہم قربانی کر کے آپ ﷺ کی سنت ادا کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں جانور ذبح کر کے اس اجر عظیم میں حصہ پا لیتے ہیں جو حضرت ابراھیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کی گردن پر چھر ی چلا کر پایا۔شرط یہ ہے کہ ہمارا یہ عمل خالص نیت کے ساتھ ہوصرف اور صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو۔اپنی خواہشاتِ ذاتی کو قربان کرکے احکام خداوندی کو بجا لانا اصل قربانی ہے۔ امیر عبدالقدیر اعوان