چیف ایڈیٹر:طارق محمود چودھری  ایڈیٹر: مظہر اقبال چودھری  مینیجنگ ایڈیٹر: ادریس چودھری

جون 16, 2025 9:09 صبح

*قربانی کے حوالے سے چند بنیادی مسائل و احکام*بقلم ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

*قربانی کے حوالے سے چند بنیادی مسائل و احکام*بقلم ڈاکٹر فیض احمد بھٹی یُوں تو قربانی سنتِ ابراہیمی کے طور پر مشہور ہے۔ لیکن ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے پابندی کے ساتھ اِس سنت کا التزام فرمایا۔ اور مسلمان بھی ہر سال اسی لیے قربانیاں ذبح کرتے ہیں؛ کیونکہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں بھی اس کی تلقین و تاکید فرمائی ہے۔ *لہٰذا* اس رفیع الشان سنت کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر ہر صاحبِ استطاعت پر لازم ہے کہ وہ عملی مظاہرہ کرتے ہوئے قربانی دے۔ اور اس کے احکام و مسائل سے بھی اچھی طرح آگہی حاصل کرے۔ *کہیں* ایسا نہ ہو کہ وہ مال بھی خرچ کرے اور ثواب سے بھی محروم رہے! *لہذا* قرآن و حدیث کی روشنی میں قربانی کے چند اہم مسائل بالاختصار اور بحوالہ پیشِ خدمت ہیں: *پس قربانی* کا جانور خریدتے وقت اچھی طرح چیک کر لیں؛ تا کہ بعد میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ *کیونکہ* مویشی منڈیوں اور بازاروں میں صحیح و ناقص دونوں طرح کے جانور پائے جاتے ہیں۔ *اس کے ساتھ ساتھ* درج ذیل مسائل کو بھی مدِ نظر رکھنا از حد ضروری ہے:1بکرا ہو یا مینڈھا، گائے ہو یا اونٹ سب کےلیے ضروری ہے کہ وہ مُسِنّة ہوں۔ *ہاں* اگر کسی مجبوری کے پیش نظر "مُسِنّة” نہ ملے تو پھر بھیڑ کا "جذعہ” ذبح کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: (لا تذبحوا الا مسنة الا ان یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضان)، صحیح مسلم، کتاب الاضاحی۔ حدیثِ مذکور میں موجود لفظ "مُسِنّة” کے بارے میں اہل علم کے ہاں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے: بعض کے نزدیک اس سے مراد دو دانتوں والا یعنی "دوندا” جانور ہے اور بعض کے نزدیک ایک سال تک کی عمر کا جانور ہے۔ *جبکہ راجح قول* یہی ہے کہ ’’مُسِنّة‘‘ سے مراد دوندا جانور ہی ہے۔ جیسا کہ لمعات شرح مشکوٰۃ، مجمع البحار اور تاج العروس وغیرہ میں مذکور ہے۔ پھر ایک اور حدیث سے اس قول کی تائید بھی ملتی ہے جس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں: (ضحوا بالثنایا) نصب الرایۃ للزیلعی۔ یعنی تم دو دانتوں والے جانور کی قربانی کیا کرو۔*درج بالا* احادیث و اقوال سے واضح ہوا کہ قربانی کےلیے جانور کا "مُسِنّة” ہونا ضروری ہے اور ’’مُسِنّة‘‘ سے مراد دوندا جانور ہی ہے۔ صحیح مسلم شریف کی مذکورہ حدیث میں یہ بھی وضاحت موجود ہے کہ اگر کسی مجبوری کی بِنا پر مُسِنّة میسر نہ ہوسکے، تو پھر جنسِ بھیڑ کا جذعہ کرنا جائز ہے۔ اس مقام پر ہم چاہتے ہیں کہ *لفظِ ’’جذعة‘‘* کی بھی کچھ وضاحت ہو جائے؛ کیونکہ بعض دوست اس لفظ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بالکل چھوٹے چھوٹے جانور قربانی کےلیے ذبح کر لیتے ہیں بلکہ تمام جانوروں کے بچوں کو بطورِ قربانی ذبح کرنا جائز بھی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ مسلم شریف کی اس حدیث سے بالکل واضح ہے کہ "جذعة” یعنی بھیڑ کا بچہ اس صورت میں قربانی کرنا جائز ہے جب دوندا ملنا محال ہو جائے بصورتِ دیگر نہیں۔*رہی بات "جذعة”* کی تو یہ لفظ مضبوط اور قوی کے معنی میں آتا ہے۔ نیز یہ مُسنہ کا نصف ہوتا ہے۔ اب جب نبی کریمﷺ نے (جذعة من الضأن) کی قید لگا دی تو ظاہر یہ ہوا کہ دوندا نہ ملنے کی صورت میں "جذعہ” قربان کیا جا سکتا ہے. لیکن وہ بھی جنسِ بھیڑ سے ہو نہ کہ کسی اور جنس سے۔ جیسا کہ اس بات کو حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے فتح الباری اور علامہ ابن عثیمین نے الشرح الممتع میں راجح قرار دیا ہے۔ بعض اہلِ علم نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ جذعۂ ضأن تقریباً گیارہ سے بارہ ماہ تک کے بھیڑ کے بچے کو کہتے ہیں۔2قربانی کا جانور موٹا تازہ اور صحت مند ہونا چاہیے۔ (صحیح البخاری، کتاب الاضاحی / مستدرک الحاکم / مسند احمد)۔3قربانی کےلیے بیمار، لاغر، لنگڑا، معذور، کانا، بھینگا، کان کٹا یا سینگ ٹوٹا یعنی ناقص اور عیب دار جانور نہیں ہونا چاہیے۔ (مسند احمد / سنن ابی داود، کتاب الضحایا / سنن الترمذی، ابواب الاضاحی)۔4خصی جانور کی قربانی بھی جائز ہے؛ کیونکہ خصی ہونا کوئی نقص یا عیب نہیں ہے۔ (سنن ابی داود، کتاب الضحایا / مجمع الزوائد)۔5آلاتِ ذبح مثلاً چھری ٹوکہ وغیرہ جانوروں سے چھپا کر تیز کریں۔ نیز ایک جانور دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنے سے گریز کریں؛ کیونکہ اس عمل سے جانور تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ اِلاّ کہ کوئی مجبوری آڑے آجاۓ۔6قربانی کا جانور خود ذبح کریں یا پھر کم از کم وقتِ ذبح قریب کھڑے رہیں؛ کیونکہ جانور کے خون کے قطرے زمین پر گرنے سے قبل ہی بندے کے صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الاضاحی/ مسند البزار)۔7نمازِ عید الأضحیٰ ادا کرنے کے بعد جانور ذبح کرنا مسنون ہے۔ کیونکہ جو قربانی نماز عید سے پہلے کی جائے وہ قربانی نہیں بلکہ عام صدقہ شمار ہوگا۔ (صحیح البخاری، کتاب الاضاحی / صحیح مسلم کتاب الاضاحی)۔8کسی فوت شدہ مسلمان یا کسی دوسرے زندہ مسلمان کی طرف سے قربانی کرنا بھی جائز ہے، مگر تب جب آدمی خود اپنی طرف سے بھی قربانی کرے اور دوسرے کی طرف سے علیحدہ قربانی دے۔ (صحیح مسلم، کتاب الاضاحی / مستدرک الحاکم/ مسند احمد / فتاوی ابن باز)۔9ایک چھوٹا جانور:بکرا، بکری، دُنبہ یا بھیڑ وغیرہ تمام اہل خانہ جن کا کھانا پینا مشترکہ ہو کی طرف سے کفایت کرتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الاضاحی / مستدرک الحاکم / سنن الترمذی، ابواب الاضاحی)۔10گائے اور اونٹ میں سات حصے دار شریک ہو سکتے ہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج / سنن ابی داود، کتاب الضحایا)۔ ایک دوسری روایت کے مطابق اونٹ میں دس حصے دار بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ (سنن الترمذی، ابواب الاضاحی / سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی)-11قربانی دن کو بھی کی جا سکتی ہے اور رات کو بھی۔ (تفسیر سورۃ الحج الآیۃ: ۸۲)۔12قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا جائز ہے، ایک اپنے لیے، دوسرا عزیز و اقارب، دوست احباب اور ہمسایوں کےلیے، جبکہ تیسرا غربا، فقرا اور مساکین کےلیے۔ (سورۃ الحج تفسیر ابن کثیر/ الشرح الممتع لابن عثیمین)۔13قربانی کی کھال اور گوشت قصاب کو ہر گز نہ دیں بلکہ ذبح کروانے کی اجرت دیں اور کھال صدقہ کریں۔ (صحیح البخاری، کتاب الحج / صحیح مسلم، کتاب الحج)۔14قربانی کی کھالیں وہیں استعمال کریں، جہاں زکوٰۃ استعمال کی جاتی ہے یعنی غربا، فقرا، مساکین، قرضدار اور دینی مدارس وغیرہ۔ (سورۃ الحج تفسیر ابن کثیر)۔15قربانی کی رقم کسی دوسرے اچھے کام پہ خرچ کرنے سے نہ تو قربانی کا ثواب ملتا ہے اور نہ ہی یہ قربانی کا بدل (alternative) بن سکتا ہے۔ (سنن الدارقطنی)-16قربانی کرنے والے کےلیے مسنون ہے کہ وہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد سے قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔(صحیح مسلم، کتاب الاضاحی / سنن ابو داود، کتاب الضحایا)۔17قربانی کےلیے کُل چار دن ہیں، ایک دن عید کا اور متصل تین دن اس کے بعد بھی۔ *یعنی* قربانی کے اختتام کا وقت چوتھے دن (13 ذو الحجہ) کا غروب آفتاب ہے۔ *جیسا* کہ آپﷺ نے فرمایا: (وفی کل أیام التشریق ذبح)۔ترجمه: أیام تشریق: (11، 12، 13 ذو الحجہ) قربانی کرنے کے دن ہیں۔ (مسند احمد بتحقیق شعیب الأرناؤوط / الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الحج / سنن الدارقطنی موصولاً / سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی / الہدایۃ، کتاب الاضحیۃ للمرغینانی/ زاد المعاد لابن القیم / غنیۃ الطالبین للسید الجیلانی)، *مزید تفصیل* کےلیے دیکھیں: فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء۔18عید الأضحیٰ کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا اور بعد میں قربانی کا گوشت کھانا سنت ہے۔ (مسند امام احمد)۔19جہاں گائے بیل وافر مقدار میں بآسانی میسر ہوں، تو وہاں گائے بیل کی ہی قربانی کرنی چاہیے۔ اگر وہ بآسانی میسر نہ ہوں یا بندے کی خرید سے باہر ہوں، اور وہاں بھینسا میسر ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔ (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء)۔*20- قربانی ذبح کرنے کا مسنون طریقہ:*قربانی کا جانور اس طرح زمین پر لٹائیں کہ اس کا پیٹ اور مُنہ قبلہ رخ ہو، پھر بائیں ہاتھ میں اُس کا مُنہ پکڑ لیں جب کہ دایاں پاؤں اس کی گردن پر رکھیں اور فوراً تکبیر (بسم اللہ واللہ اکبر) پڑھ کر چُھری چلا دیں۔ (صحیح البخاری/ صحیح مسلم)۔ جبکہ اونٹ کے لیے افضل اور آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے کھڑا کیا جائے پھر اس کا بایاں پاؤں فولڈ کر کے مضبوطی سے گُھٹنے کے ساتھ اچھی طرح باندھ دیں۔ بعد ازاں تیز نوکدار چُھری اس کی شہ رگ میں تکبیر پڑھتے ہوئے پیوست کر دیں۔ خون بہتا رہنے دیں یہاں تک کہ وہ خود بخود نیچے گر جائے۔ (صحیح البخاری، کتاب الحج / سنن ابو داود، کتاب المناسک)۔*الله تعالى* تمام مسلمانوں کی قربانیوں کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ آمین!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

متعلقہ خبریں

جہلم// ادریس چودھری// سنت ابراھیمی (قربانی)جو کہ نبی کریم ﷺ نے ادا کی ہم قربانی کر کے آپ ﷺ کی سنت ادا کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں جانور ذبح کر کے اس اجر عظیم میں حصہ پا لیتے ہیں جو حضرت ابراھیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کی گردن پر چھر ی چلا کر پایا۔شرط یہ ہے کہ ہمارا یہ عمل خالص نیت کے ساتھ ہوصرف اور صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو۔اپنی خواہشاتِ ذاتی کو قربان کرکے احکام خداوندی کو بجا لانا اصل قربانی ہے۔ امیر عبدالقدیر اعوان

تازہ ترین خبریں

جہلم// ادریس چودھری// سنت ابراھیمی (قربانی)جو کہ نبی کریم ﷺ نے ادا کی ہم قربانی کر کے آپ ﷺ کی سنت ادا کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں جانور ذبح کر کے اس اجر عظیم میں حصہ پا لیتے ہیں جو حضرت ابراھیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کی گردن پر چھر ی چلا کر پایا۔شرط یہ ہے کہ ہمارا یہ عمل خالص نیت کے ساتھ ہوصرف اور صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو۔اپنی خواہشاتِ ذاتی کو قربان کرکے احکام خداوندی کو بجا لانا اصل قربانی ہے۔ امیر عبدالقدیر اعوان