
*حجاج کےلیے شاندار خدمات و اقدامات پر سعودی حکومت خراج تحسین کی مستحق ہے* بقلم:ڈاکٹر فیض احمد بھٹی ۔۔ویسے تو حج بیت اللہ کی ادائیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے چلی آ رہی ہے تاہم رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت کو عملاً ادا کر کے اپنی پوری امت کےلیے مسنون بنا دیا ہے۔ یوں یہ سنتِ ابراہیمی حلقۂ اطاعت میں آ کر سنت محمدی قرار پا گئی۔ بیت اللہ شریف کے انتظامات اور حجاج کی خدمات کو زمانہ جاہلیت اور بعد از بعثت ہر دو ادوار میں بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ ہر دور میں مسؤولینِ کعبہ نے ان خدمات و اقدامات کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کی۔ چلتے چلتے جب حرمین شریفین کی خدمت عثمانیوں کی تحویل میں آئی تو انہوں نے بھی سابقین کی اس روایت کو نبھایا اور خوب نبھایا۔ بلکہ عثمانی سلطان عبدالحمید ثانی نے حرمین شریفین کی خدمات میں جو بے مثال اقدامات کیے اسکی نظیر نہیں ملتی۔ عثمانیوں کے بعد حجازِ مقدس کی خدمت کا شرف آل سعود کے حصے میں آ گیا جو تا حال ان کے پاس ہے۔ آلسعود نے خدمت کی اس روایت میں اپنے عصر کی درایت شامل کر کے اسے اعلیٰ رفعتوں سے ہمکنار کر دیا۔ یاد رکھیے! دنیا کے مقدس ترین مقامات (بیت اللہ و مسجد نبوی) کی خدمت کا اعزاز جو سعودی حکومت اور قیادت کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں۔ سو اس اعزاز کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب نے حرمین شریفین یعنی بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی شریف کی توسیع و تزئین کا ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو تاریخ کے روشن ابواب میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ثبت ہو چکا ہے۔ اس پر مستزاد انہوں نے حرمین شریفین میں زائرین کو ایسی سہولیات دی ہیں جو ان کےلیے آسودگی بخش بھی ہیں اور ادائیگیِ حج و عمرہ کی مشقت کو بھی قابلِ برداشت بناتی ہیں۔ حرمین شریفین کی خدمات کے حوالے سے دورِ جدید کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ وزارتِ حج و عمرہ کی باقاعدہ بنیاد 1381 ھجری، سن 1962ء میں رکھی گئی۔ اور یہ کابینہ کی سطح پر واحد وزارت ہے جس کا مرکزی دفتر مکہ مکرمہ میں واقع ہے۔ حجاج کرام کےلیے مناسکِ حج کی ادائیگی کو بہترین بنانے کے انتظامات کا آغاز بانیِ سعودی عرب شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود کے دور سے ہوا، جنہوں نے محکمہ حج کے قیام کی بِنا ڈالی۔ اس کے بعد یہ ادارہ ترقی کرتا ہوا عمومی حج انتظامیہ، پھر وزارت حج و اوقاف اور آخر کار "وزارت حج و عمرہ” کی صورت اختیار کر گیا۔ 1993ء میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے اوقاف کے شعبے کو وزارت حج سے الگ کر دیا گیا اور 2016ء میں اس وزارت کا نام تبدیل کرکے "وزارتِ حج و عمرہ” رکھا گیا۔ "وزارت حج وعمرہ” حجاج و معتمرین کے امور کو نبٹاتی ہے: جس میں پالیسیوں کا تعین، ان کے اثرات کا جائزہ، منصوبہ بندی اور نگرانی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ منسٹری حج کے پراسس کو بہتر بنانے کےلیے سروسز تشکیل دیتی ہے، حجاج کے حقوق کا تحفظ اور ان کو فراہم کی جانے والی خدمات کی نگرانی کرتی ہے۔ اس وزارت کا مقصد حجاج کرام کی خدمت اور ان کےلیے عملی اقدمات کو بہترین بنانا ہے۔ تاکہ حجاج و معتمرین اس مقدس فریضے کو سہولت اور سکون سے ادا کر سکیں۔ سعودی حکومت کی طرف سے انتہائی منظم انتظامات و اقدامات ہی کی بدولت ہر سال لگ بھگ 25 لاکھ کے اجتماع میں کسی قسم کی بھگدڑ مچتی ہے نہ ہی کسی جگہ ہڑبونگ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ عازمین حج کو ہر طرح کی سیکیورٹی فراہم کرنا سعودی حکومت نے خود پہ لازم کر رکھا ہے۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم کے بعد یہ سعودی گورنمنٹ کی دانشمندانہ قیادت ہی کا فیض ہے کہ لاکھوں کے اجتماع میں کوئی دھینگا مشتی ہوتی ہے اور نہ ہی کہیں گندگی یا کچرہ نظر آتا ہے۔ تاحد نگاہ تسکین کی کیا خوب فضا ہوتی ہے اور ہر چہرے پہ اطمینان کا کیا روح پرور نظارہ ہوتا ہے!!! ایک رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے باوجود گذشتہ 40 سال کے دوران سعودی حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے ہیٹ سٹروک کے واقعات میں 74 فیصد جبکہ گرمی کے سبب اموات میں 47 فیصد تک کمی آئی ہے۔ سعودی حکومت نے حجاج کےلیے عمارتوں کی ڈیزائننگ کچھ اس انداز سے کروائی ہے کہ ہوا کی آمد و رفت کو یقینی اور قدرے ٹھنڈہ بنایا جا سکے۔ حجاج کو سایہ فراہم کرنے اور آب و ہوا کو معتدل رکھنے کےلیے حکومت نے مکہ سے عرفات تک جگہ جگہ سایہ دار درخت لگائے ہیں۔ بوڑھے اور معذور حجاج کےلیے بڑی تعداد میں الیکٹرانک وہیل چیئرز کا بندوبست، نیز مسجد الحرام میں علمی لیکچرز اور دینی وعظ کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی سعودی حکومت کا ایک زبردست اقدام ہے۔ عازمین حج کےلیے حسب ضرورت معروف زبانوں میں مترجم بھی مہیا کیے جاتے ہیں۔ آب زمزم کی فراہمی کےلیے جگہ جگہ سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔ حجاج کے کھانے پینے اور ان کےلیے مناسب رہائشوں کا انتظام کرنا، وقتِ طواف جمِ غفیر کو منظم رکھنا، صفا مروہ کی سعی اور رمی الجمار کے وقت پر امن ماحول پیدا کرنا الغرض: تمام مناسک حج کی ادائیگی کےلیے بہترین انتظامات اور مستحسن اقدامات خادم الحرمین الشریفین کی قیادت بالخصوص مرکزی کمیٹی حج کے منتظمین کی احساسِ ذمےداری کا بیّن ثبوت ہے۔ حکومت کی ان مختلف النوع اور مرتب مساعی جمیلہ سے یہی ہویدا ہے کہ حکومت تمام عازمین حج کو حقیقتاً "ضیوف الرحمان” سمجھتی ہے۔ تمام حجاج کرام کے پہلے دن کے ورود سے ان کے آخری دن کے خروج تک بلا امتیازِ رنگ، نسل اور مسلک ان کےلیے ہر طرح کی سہولیات بہم پہنچانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سعودی عرب کی قیادت وسیع الظرف، انتہائی باشعور اور للہیت کے احساس سے سرشار ہے۔ ان اعلی ترین خدمات و اقدامات پہ سعودی حکومت پورے عالمِ اسلام کی طرف سے یقیناً خراجِ تحسین کی مستحق ہے۔ امسال 2025ء 2446ھ میں بھی سعودیہ گورنمنٹ نے مناسک حج اور حجاج کرام کے حوالے سے اپنی وہی سابقہ روایت دہرائی ہے، جو پورے عالم اسلام میں ان کا طغرائے امتیاز سمجھی جاتی ہے۔ زمانہ شاہد ہے کہ جب سے حجاز مقدس کی باگ آلِ سعود کے ہاتھ آئی ہے تب سے اب تک زائرین کی بہبود و فلاح کے حوالے سے ان کی حکمت عملی ہر گزرتے سال بہتر سے بہتر ہو رہی ہے۔ ہر اعتبار سے حجاج کی بے غرض و بے لوث خدمت سعودی حکومت کے عزم بالجزم کی عکاسی کرتی ہے۔ ان متنوع اور شاندار خدمات کے تناظر میں پوری امت مسلمہ سعودی عرب کے اربابِ حل و عقد خصوصاً خادم الحرمین شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان MBS کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے بلکہ ان کےلیے تشکر آمیز احساسات بھی رکھتی ہے، نیز ان کی خیر و عافیت کےلیے ہردم خدا کے حضور دعا گو ہے۔