چیف ایڈیٹر:طارق محمود چودھری  ایڈیٹر: مظہر اقبال چودھری  مینیجنگ ایڈیٹر: ادریس چودھری

اکتوبر 16, 2025 12:37 شام

*بے حسی میں لپٹی دل فگار خبر اور ہماری پستیِ فکر*بقلم:ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

*بے حسی میں لپٹی دل فگار خبر اور ہماری پستیِ فکر*

بقلم:ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

✓پچھلے دنوں کی بات ہے کہ مہران یونیورسٹی جامشورو سندھ کے سابق وائس چانسلر سید مظفر علی شاہ کی بیوی یتیم خانے میں وفات پا گئیں۔ ان کا ایک بیٹا فخر علی شاہ امریکہ سے تعلیم یافتہ ہے۔ ایک بیٹی ڈاکٹر ہے اور دوسری بیٹی فرح ناز فیصل بینک کی وائس پریذیڈنٹ ہے۔ دوسرا بیٹا قلندر علی شاہ کاروبار، زمینیں اور باغات سنبھالتا ہے۔ بھانجے طلحہ پٹھان نے اپنوں کی ملی بھگت سے علاج کے بہانے انہیں ٹنڈو جام لے جا کر یتیم خانے میں چھوڑ دیا۔ جہاں وہ سات مہینے اپنی اولاد کے انتظار میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اپنے پیاروں کی راہ تکتے تکتے وفات پا گئیں۔ اتنی پڑھی لکھی، اتنے بڑے عہدوں پر فائز اولاد ہو اور ماں لا وارث ہو کر یتیم خانے میں مرے، تو ایسی اولاد کو "ڈوب مرنا چاہیے”۔ خاک ایسی تعلیم پہ، خاک ایسی دولت پہ! یہ واقعہ نیرنگِ زمانہ کی عکاسی کرتا ہے۔ کل تک جو ماں ان کےلیے ایک سایہ درخت تھی، کڑی دھوپ میں خود جھلستی، مگر انہیں وقت کے کڑے تیوروں سے بچاتی تھی، آج وہی ماں ان کےلیے ایک ناگوار بوجھ بن گئی۔ اپنی ستم شعاری میں بچوں کا کردار اس میں یقیناَ انتہائی قابلِ نفرین ہے۔ کیونکہ ایک ماں جو نو ماہ تک بچے کو پیٹ میں رکھتی ہے، اسے اپنے خون سے خوراک دیتی ہے اور پھر اسے جنتی ہے۔ اس عرصے میں اسے کن سخت مرحلوں اور اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے! یہ ظاہر باہر ہے۔ پیدائش کے بعد کے مراحل بھی کچھ کم آسان نہیں۔ ڈھائی سال تک بچہ ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر رہتا ہے۔ ایک بچے پہ ماں کے احسانات اس قدر ہیں کہ انہیں اگر ایک پلڑے میں ڈالیں اور دوسرے میں خدا کی کل خدائی ڈالیں تو بھی احسانات کا پلڑا بھاری رہے گا۔✓یاد رہے! پاکستان میں رشتوں کی پامالی صرف ماں باپ تک ہی محدود نہیں، دیگر رشتے بھی اسی نوع کی حیوانیت کی زد میں ہیں۔ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ باپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بڑے بیٹے نے باپ کی کما حقہ قائم مقامی کرنے کے بعد جوں ہی داعی اجل کو لبیک کہا توں ہی اس کے برادران جھاڑیوں میں چھپے درندوں کی طرح گھات لگائے ہوئے تھے۔ اس خیال میں تھے کہ کب اس کی اجل آئے اور ہمیں کھل کر حسرتیں نکالنے کا موقع ملے۔ سوءِ اتفاق سے من کی مرادیں بر آئیں۔ جوں ہی دم نکلا توں ہی ساری تمنائیں ایک نکتے پہ مرکوز ہو گئیں کہ کفن دفن سے پہلے ہی ان کی خواب گاہ سے سب کچھ سمیٹ لیا جائے۔ وقتِ شام اس کے لیے ڈھونگ یہ رچایا کہ میں بڑے بھائی کے بستر پہ لیٹنے لگا ہوں تا کہ ان کی یادوں سے بے قرار دل کو قرار آ جائے۔ ان کے بچھڑنے کا غم اس قدر شدید ہے کہ کسی کل چین نہیں پڑ رہا مجھے۔ پھر یادوں کو کیا سمیٹا، مرحوم کی ہر شے سمیٹ کر یہ جا وہ جا۔ یہاں ذرا رکیں۔ کیا بے حسی ہے! ایک طرف لواحقین غم سے نڈھال ہیں۔ بیوگان، بیٹیاں، بیٹے، داماد دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں اور عین اسی وقت، اسی لمحے ننگ و عار کا وہ نظارہ پیش ہو رہا ہے کہ ازازیل بھی جسے دیکھے تو شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ گویا بزبان اعمال فرشتوں کے کہے (من یفسد فیھا) پہ مہرِ تصدیق ثبت کی جا رہی ہے۔ اندازہ لگائیں! پل بھر میں لوگ کیسے طوطا چشم ہو جاتے ہیں۔ اس کی زندگی میں ہر دم وردِ زبان "بھائی جان، بھائی جان” رہتا تھا۔ پھر جوں ہی وہ بسترِ مرگ پہ جا پڑا،جیسے ہی اس نے آنکھیں موندیں، رگ رگ میں چھپی حیوانیت ایک دم باہر نکل پڑی، برسوں کی مچلتی خواہشوں کے پورا ہونے کا وقت آن پہنچا۔ بظاہر آنکھوں میں نمی اور زبان پہ زندگی کی دعائیں تھیں، مگر اندر ہی اندر یہ بے قراری تھی کہ کہیں سانسیں لمبی نہ ہو جائیں۔ دبے پاؤں گھر میں داخل ہونا اور "کسی” کی ملی بھگت سے مرحوم کے تمام کاغذات، ذاتی ڈائریاں، پاسپورٹس، زمینوں کی رجسٹریاں، نقدی وغیرہ لے جانا کس زمرے میں آئے گا؟! شیطنت کے کس درجے میں ہم اس سیاہ کردار کو رکھیں گے؟! توحید و سنت کے علم برداروں کے ہاتھ میں بظاہر چراغِ مصطفوی ہے مگر بباطن یہ بولہبی آگ لگائے، دھواں بکھیرے ہوئے ہے۔ کائیاں لوگوں کے نزدیک یہ کارنامہ ہے، یہ ان کی برتری ہے، ان کے ہاں پرایا مال سمیٹنا عظمت سمجھا جاتا ہے۔ بزعم خویش یہ طبقہ دنیاوی یا آسمانی کسی قوت کی گرفت میں نہیں ہے۔ مگر جو حیات بعد ممات کا قائل ہے وہ جان لے کہ اس دنیا سے پرے جلد ایک عدالت لگنے کو ہے۔ جہاں حقوق العباد کے معاملے میں ادنی ترین درجے کی بھی معافی ہر گز نہیں ملے گی۔ وہاں مذہبی عہدے کام آئیں گے اور نہ ہی چرب زبانی۔ وہاں ظالم مظلوم کے پاؤں پڑا رحم کی بھیک مانگے گا، مگر دھتکار دیا جائے گا کہ جرم کی نوعیت ہی اس قدر شدید ہے اور پھر وہاں، کہاں کا بڑا بھائی اور کہاں کا چھوٹا بھائی۔ سب رشتے بے معنی ہو جائیں گے۔ قارئین! درج بالا دونوں خبریں، جو اپنی ذات میں سانحات کا درجہ رکھتی ہیں، مبنی بر حقیقت ہیں۔ مگر ان دونوں واقعات میں ایک فرق ہے۔ جو اول الذکر کے مقابلے میں ثانی الذکر کو زیادہ سنگین اور پڑھنے والوں کو زیادہ غمگین کرتا ہے۔ وہ یہ کہ پہلی خبر کے کردار دنیاوی اور دوسری خبر کے کردار دینی پس منظر کے حامل ہیں۔ یعنی اِنہیں زعم ہے کہ انہیں "العلما ورثۃ الانبیا” کے زمرے میں مانا اور جانا جائے۔ پہلے طبقے نے اپنی عصری تعلیم کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اس طبقے نے اپنے اثری (دینی) تعلیم کا کوئی لحاظ نہیں رکھا۔ دونوں پہ ہی تٗف!!! مگر خدا کے ہاں دنیاوی علم کی بجائے دینی علم کا حامل بڑا مجرم قرار پائے گا۔ یوں کہ یہ انبیا کی وراثت کا مدعی ہے۔ یہ ہر جمعے کو منبر رسول پہ براجمان ہو کر لوگوں کو دین سکھاتا اور ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ یہ مذہبی تحریکوں میں پیش پیش ہوتا ہے۔ یہ جماعتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتا ہے۔ اتنی مذہبی سرگرمیوں کے باوصف اگر اس کا منصب اسے تہذیب نہیں سکھا سکا، اس کا اپنا تزکیہ نفس نہیں کر سکا: تو دنیا داروں کی نسبت اس کے جرم کی نوعیت کہیں بڑھ جاتی یے۔ پھر خدا کے ہاں سزائیں بھی اسی حساب سے ملیں گی۔ یعنی جتنا کسی کو علم ہو گا اسی اعتبار سے اسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوچیے! اگر ملک میں مذہبی باووں کا یہ حال ہے، تو دنیا داروں کا حال تو ان سے بھی زیادہ بدتر ہو گا۔ اگر یہ رشتوں کا لحاظ نہیں کریں گے تو پھر اس کے بہت برے اثرات ہوں گے معاشرے پر۔✓یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ سانحہ سوات کا جنم اسی بے حسی کی وجہ سے ہوا ہے۔ رشتے احساس جنم لیتے ہیں۔ اگر احساس ہی معدوم تو کہاں کا رشتہ اور کہاں کی انسانیت۔ یہ عدم احساس ہی تھا جس کے باعث 13 لوگ لہروں کی نذر ہوئے۔ کیا بےحسی کا عالم ہے کہ کنارے پہ کھڑے لوگ موت کے منہ میں پھنسے، زندگی کی دہائیاں دیتے بچوں، عورتوں اور مردوں کو بجائے بچانے کے ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ اگر ان تماش بینوں میں رتی بھر احساس ہوتا تو انسانی جانوں کا یہ ضیاع ہر گز نہ ہوتا یا ہوتا تو کم ہوتا۔ اس سوات حادثے کو جنم دینے میں سب سے پہلے حکومت کی نااہلی بلکہ مجرمانہ غفلت ہے، جو 13 سالوں سے ان حادثات کو روکنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ہی نہیں بنا سکی۔ اس باب میں گنڈاپور اینڈ کمپنی کسی صورت میں خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ پی ٹی آئی والوں کو بہر صورت کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا اور قوم کو جواب دینا پڑے گا۔ اوپر ڈھٹائی کا عالم دیکھیں! صوبائی حکومت کے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے پاک پتن کے ہسپتال میں بچوں کے ہلاکت کا مقدمہ لے آئے ہیں۔ یعنی نااہلی کا مقابلہ ایک دوسری نااہلی سے ہو رہا ہے۔ یعنی پہلے آپ ہم سے پنجاب حکومت کے جرم پر بات کریں پھر ہم سوچیں گے کہ سیاحوں کی ہلاکت پر بات کریں یا نہ کریں۔ گویا جواز دیا جا رہا ہے۔ دوسرے نمبر پہ یہ سیاح قصور وار ٹھہرتے ہیں۔ (خدا انہیں غریق رحمت کرے) مون سون کے مہینے میں بیچ دریا کھڑے ہو کر سیلفیاں لے رہے ہیں۔ دائیں بائیں کا کوئی ہوش نہیں، کچھ خبر نہیں کہ آدم بو آدم بو کرتا پانی کا ریلا کسی وقت بھی ہمیں اپنے ساتھ بہا سکتا ہے۔ تیسرے نمبر پہ مجرم وہ مافیا ہے جو غیر قانونی طور پر دریاؤں سے بجری نکالتے ہیں۔ اس سے دریاؤں کی گہرائی پانی میں پھنسے لوگوں کو مزید مشکلات میں ڈالتی ہے۔ اس حادثے میں کسی کا جرم ہے تو کسی کی نااہلی۔ جب تک اس سانحے کا ذمہ دار ہر طبقہ خود احتسابی کی عادت نہیں اپنائے گا تب تک یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔ 2022ء میں جس سلابی ریلے نے پانچ جانیں لی تھیں 2025ء میں اسی سیلابی ریلے نے 13 جانے لے لیں۔ جب تک جب تک ہم اپنا مجرمانہ کردار ادا کرتے رہیں گے تب تک یہ بھیانک تاریخ خود کو دہراتی رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

متعلقہ خبریں

قرآن کریم میں جو قوانین اللہ کریم نے ارشاد فرمائے ہیں ان میں مساوات ہے۔رہتی دنیا تک یہ اصول اور ضابطے قابل عمل ہیں۔اور ان پر کیے گئے فیصلے اتنے متوازن ہوتے ہیں کہ اس میں فریقین کے درمیان فتح و شکست نہیں ہوتی بلکہ فریقین کے درمیان ایسا انصا ف ہوتا ہے کہ دونوں مطمئن ہوتے ہیں۔امیر عبدالقدیر اعوان

تازہ ترین خبریں

قرآن کریم میں جو قوانین اللہ کریم نے ارشاد فرمائے ہیں ان میں مساوات ہے۔رہتی دنیا تک یہ اصول اور ضابطے قابل عمل ہیں۔اور ان پر کیے گئے فیصلے اتنے متوازن ہوتے ہیں کہ اس میں فریقین کے درمیان فتح و شکست نہیں ہوتی بلکہ فریقین کے درمیان ایسا انصا ف ہوتا ہے کہ دونوں مطمئن ہوتے ہیں۔امیر عبدالقدیر اعوان