
استخارہ
مولاناامیر محمد اکرم اعوان رح
شریعت میں استخارہ کا حکم ملتا ہے، بندہ اس صورت میں استخارہ کرسکتا ہے کہ ایک کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا معیار حکم شرعی ہے، استخارہ نہیں ہے۔ اب تواستخارہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ ہربندہ اگر دال خریدنے بھی جائے تو ٹی وی پر استخارہ کراتاہے کہ دال خریدے یا نہ خریدے۔ استخارہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے لیے نہیں ہے۔کام کرنے یا نہ کرنے کے لیے حکم شرعی شرط ہے، اگر شرعاً جائز ہے۔ آپ کرسکتے ہیں،کسی استخارے کی ضرورت نہیں۔شرعاً جائز نہیں ہے، آپ نہیں کرسکتے، کسی استخارے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک کام کرنا ہے اور اس کام کو کرنے کے دوطریقے ہیں اور دونوں شرعاً جائز ہیں۔وہ کام دو طرح سے ہوسکتا ہے اور دونوں طریقے شرعاً جائز ہیں تو ا س میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ استخارہ کرلو۔ دو نفل پڑھو اور اللہ سے دعا کرو کہ اللہ میری راہنمائی فرمادیجئے کہ میں یہ کام کس طریقے سے کروں؟ اللہ کریم تمہیں شاید خواب دکھا دیں یا راہنمائی فرما دیں اور تمہیں سمجھ آجائے کہ اس طریقے سے کام کرو ں تو بہتر ہے۔لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جن لوگوں کو حضور ﷺ نے یہ تعلیم دیا تھا وہ لوگ کون تھے؟وہ صحابہ کرام ؓ تھے۔ ان کے دل روشن تھے،وہ پکے نمازی تھے،وہ ایک ایک ذرہ حلال کھاتے تھے۔حرا م نہیں کھاتے تھے،وہ جھو ٹ نہیں بولتے تھے،وہ چوری نہیں کرتے تھے،وہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی نافرمانی نہیں کرتے تھے یعنی استخارہ کرنے سے پہلے وہ اوصاف بھی ہونے چاہیں جو ایک مومن کے ہیں۔ہم لوگوں کاتوسارامعاشی نظام ہی سودپرہے۔ جو کپڑے میں نے تن پر پہنے ہوئے ہیں، ان کی تاروں میں بھی سود ہے،میں مجبور ہوں۔ مسجد میں جوجائے نماز پڑا ہے،جو کارپٹ مسجد میں بچھا ہوا ہے، جو سیمنٹ مسجد میں لگا ہوا ہے،اس سب میں سود کا اثر شامل ہے۔یہ سارے کارخانے سود پر چل رہے ہیں۔ ہمارے اوڑھنے بچھونے میں سود ہے۔ہمارا استخارہ کیا ہو گا؟کھانے میں حرام ہے، بولتے ہم جھوٹ ہیں،نماز یا تو ہم ادا نہیں کرتے، جو اداکرتے ہیں وہ ایک رسم ہے۔ہمیں کیا علم ہو گا کہ نماز میں سجدے کا مفہوم کیا ہے؟ ہمیں تو نماز میں رکعتیں تک یاد نہیں ہوتیں کہ دو پڑھی ہیں یا تین پڑھی ہیں۔اس طرح کے لوگ استخارے کے قابل نہیں ہیں پھر استخارہ جس کی ضرورت ہے وہ خود کرے۔ اب تو یہ عام ہو گیاہے کہ آپ اتنے پیسے مجھے دیں،میں آپ کو استخارہ کردیتاہوں یا ٹی وی والے چینل چلانے کے لیے ایک ملا بٹھا لیتے ہیں۔ آپ فون کریں وہ اسی وقت استخارہ کرکے بتادیتے ہیں۔ یہ دین کا مذاق اڑانا ہے، یہ درست نہیں ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس طرح عقیدے پر زد پڑتی ہے کہ آپ حکم شرعی کو نہیں مانتے، استخارے کرا تے پھرتے ہیں پھر زیادہ استخارے شادی کے لیے ہوتے ہیں۔ میرے پاس بھی خطوط آتے ہیں کہ فلاں جگہ بچے یا بچی کا رشتہ کرنا ہے آپ استخارہ کرکے ہمیں بتائیں میں جواب میں صرف اتنا لکھتا ہوں کہ شرعی طریقہ یہ ہے کہ پہلے بندے کا عقیدہ دیکھیں،عقیدہ صحیح ہے پھر عمل دیکھیں۔کیااللہ کے ساتھ اس کے معاملات درست ہیں؟دوسرے درجے میں دنیا دیکھیں کہ اس کا روزگار ہے، کاروبار ہے، کوئی زمین یا جائیداد ہے۔ بچوں کو پالنے کی اہلیت رکھتا ہے تو بسم اللہ، ضرور رشتہ کریں۔یہ چیزیں ظاہراً دیکھنے کی ہیں، ان کے لیے استخارے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ شرعی طریقہ ہے۔ لیکن بڑی عجیب بات ہے لوگ دیکھتے ہیں تو صرف دولت۔ گدھے پر سونا لدا ہو ا ہو تو اسے بھی بیٹی بیاہ کر دے دیتے ہیں۔صرف دولت دیکھتے ہیں۔نہیں دیکھتے کہ اسے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا کوئی علم بھی ہے، اسے کلمہ بھی آتا ہے یا نہیں۔ کبھی اس نے نماز بھی پڑھی ہے یا نہیں۔اس کا آخرت کے ساتھ بھی کوئی تعلق ہے یا نہیں۔استخارہ بھی دنیا کے لیے کراتے ہیں کہ اگر ہم رشتہ دیں گے تو کیایہ آرام میں ہوں گے کہ نہیں؟کمال ہے یار،یہ چیزیں اطاعت رسول ﷺ کے خلاف ہیں۔ اتباع شرعیت کے خلاف ہیں اور یہ چیزیں ایمان پر زد ڈالتی ہیں۔ جب آپ کسی ملا کے استخارے پر فیصلہ کرتے ہیں اور اللہ کے رسولﷺ کے مطابق نہیں کرتے تو یہ زد عقیدے اور ایمان پر پڑتی ہے۔ان رسومات کا خاتمہ بھی مساجد کی آبادی میں شامل ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِر (توبہ 18:)اور مسجدیں وہ لوگ آباد کرتے ہیں جن کا ایمان اللہ پر درست ہو،آخرت کو مانتے ہوں۔ یہاں درمیان میں صرف ”و“ لگائی ہے کہ جیسا اللہ پر ایمان ہے، ویسا ہی آخر ت پر بھی ایمان ہے۔ جس پختگی سے اللہ کی عظمت کے قائل ہیں۔ اس کے قادر ہونے کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو، اللہ تعالیٰ کی صفات کو جس طرح حضور ﷺ منواتے ہیں اس طرح مانتے ہیں۔کیاہم اسی یقین سے آخرت کو بھی مانتے ہیں؟ قیامت کوبھی مانتے ہیں؟ حساب کتاب کو بھی مانتے ہیں؟جنت دوزخ کو بھی مانتے ہیں؟اللہ کریم صحیح شعور عطافرمائیں۔امین