چیف ایڈیٹر:طارق محمود چودھری  ایڈیٹر: مظہر اقبال چودھری  مینیجنگ ایڈیٹر: ادریس چودھری

اکتوبر 17, 2025 4:41 صبح

عنوان: پسند کی شادی ۔۔تحریر : محمد زاہد خورشید جہلم

عنوان: پسند کی شادی

تحریر : محمد زاہد خورشید

ہمارے معاشرے میں جب لڑکا گھر میں اپنی شادی کے لیئے کسی لڑکی کو پسند کا اظہار کرتا ہے تو خوشی سے سب کھل کھلا اٹھتے ہیں بہنیں صدقے واری جاتی ہیں ماں باپ کے دل جھوم اٹھتے ہیں اور لبوں پہ بے اختیار آتا ہے کہ شکر ہے کوئی پسند تو آئی میرے لال کو لیکن جیسے ہی کسی لڑکی کی پسند کی شادی کا ذکر ہوتا ہے، ماحول میں عجیب سی خاموشی اور تناؤ چھا جاتا ہے۔ والدین کی پیشانیاں شکن آلود ہو جاتی ہیں، بھائی غیرت کا طوفان بن جاتے ہیں، اور سارا خاندان عزت کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ مگر کیا واقعی ایک بالغ، باشعور لڑکی کا اپنی پسند سے شادی کرنا اسلام کے خلاف ہے؟ یا یہ صرف ہمارے بنائے ہوئے روایتی بت ہیں جن کی پوجا ہم نسل در نسل کرتے آ رہے ہیں؟اسلام میں نکاح کو عبادت، سنت اور فطری تقاضا قرار دیا گیا ہے۔ اس میں مرد و عورت دونوں کی باہمی رضامندی بنیادی شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:”فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ”(البقرہ: 232)یعنی: "انہیں نکاح سے نہ روکو جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہو جائیں۔”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔”(صحیح بخاری)اسلام عورت کو محض نکاح کا "موضوع” نہیں بناتا، بلکہ "فریق” بناتا ہے۔ لڑکی کی رضا کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی والدین زبردستی نکاح کرا دیں تو لڑکی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے نکاح کو منسوخ کروا سکتی ہے۔تاریخ اسلام میں ایسی روشن مثالیں موجود ہیں جہاں خواتین نے اپنی پسند سے شریعت کے دائرے میں رہ کر نکاح کیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس کی بہترین مثال ہیں۔ وہ قریش کی معزز، مالدار اور باشعور خاتون تھیں۔ جب انہوں نے نبی کریم ﷺ کے اخلاق، دیانت اور سچائی کو جانا، تو اپنی سہیلی نفیسہ کے ذریعے پیغامِ نکاح بھجوایا۔ نبی ﷺ نے مشورہ کے بعد اسے بخوشی قبول کیا۔ یہ نکاح خلوص، رضا اور شریعت کی بنیاد پر قائم ہوا اور تاریخ اسلام کا پہلا اور سب سے باعزت رشتہ بن گیا۔اسی طرح حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی کے لیئے جب حضرت علیؓ نے نکاح کا پیغام دیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ سے مشورہ کیا۔ وہ شرم سے خاموش رہیں، اور نبی ﷺ نے اس خاموشی کو رضا سمجھا۔ یہ نکاح نہایت سادگی، محبت اور برکت کے ساتھ انجام پایا۔ یہ دونوں واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ پسند کی شادی نہ صرف جائز ہے بلکہ باعثِ برکت بھی ہو سکتی ہے، بشرطیکہ: نکاح باقاعدہ گواہوں کے ساتھ ہو۔ مہر طے کیا جائے۔ ولی کو اعتماد میں لیا جائے۔ نکاح اعلان کے ساتھ ہو، یعنی چھپایا نہ جائے۔ہمارے معاشرے میں پسند کی شادی کو اکثر "بھاگنے” یا "بغاوت” سے تعبیر کیا جاتا ہے، حالانکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پسند کی شادی اگر والدین کو عزت کے ساتھ اعتماد میں لے کر، شرعی اصولوں کے مطابق کی جائے، تو یہ باعث سکون ہوتی ہے۔ لیکن اگر شادی خفیہ، جھوٹ اور فرار کی بنیاد پر ہو، تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ لیکن کیا کھی کسی نے سوچا کہ آخر لڑکی کو بھاگ کر شادی ہی کیوں کرنی پڑی؟ نہیں۔ اگر اس کو معلوم ہو کہ اس کی پسند کا آنے والا رشتہ کسی برادری ازم یا کسی بھی خود ساختہ نفرت کی نظر نہیں ہوگا اور ماں باپ اس کی رضا کو قبول کریں گے تو وہ ایسا قدم کیوں اٹھائے؟؟؟والدین کو چاہیئے کہ بیٹیوں کی بات سنیں، ان پر بھروسہ کریں اور انہیں مشورہ، محبت اور رہنمائی کے ساتھ فیصلے کی آزادی دیں۔ زبردستی، مارپیٹ یا بدگمانی صرف دوریاں پیدا کرتی ہے، نہ کہ اصلاح۔لڑکیوں کو بھی چاہیئے کہ وہ والدین کو اپنا دشمن نہ سمجھیں۔ اگر کسی کو پسند کرتی ہیں تو سچائی، حیا اور شریعت کے دائرے میں رہ کر اپنی بات رکھیں۔ سچ میں برکت ہے، اور والدین کی رضا سے رشتے میں دوگنا سکون آتا ہے۔یاد رکھیں، نکاح صرف دو افراد کا بندھن نہیں بلکہ دو خاندانوں کا اتحاد ہوتا ہے۔ اور جب یہ سنت کے مطابق، محبت اور خلوص سے کیا جائے تو دنیا و آخرت دونوں سنور جاتے ہیں۔ رشتہ بھیجنے والے سگے رشتے داروں کا بھی کام ہے کہ اگر کسی وجہ سے لڑکی کی جانب سے پسند کا اظہار نہیں ہوتا تو اسے انا کی بھینٹ چڑھا کر رشتے نہ ختم کریں بلکہ اللہ کا شکر ادا کریں کہ بعد کی پریشانی سے ختم ہوجانے والے رشتے و تعلقات بحال رہے۔ زبردستی نکاح چاہے لڑکی کا ہو یا لڑکے کا کامیاب نہیں ہوتا اور اسلام و قانون بھی اس کی نفی کرتا ہے۔ میں ذاتی طور پر ایک بہت ہی قریبی دوست کو جانتا ہوں جس کی شادی اس کے گھر والوں نے منتیں ترلے کرواکر اپنی خالہ کی بیٹی سے کردی لیکن شادی کے بعد اس کا کہنا تھا کہ زاہد بھائی جس کمرے میں میری بیوی بیٹھی ہو میرا دل نہیں کرتا اس میں جانے کا۔ بالآخر اس نے دوسری شادی چھپ کر کرلی اور جب خاندان والوں کے علم میں آئی تو پہلی کو طلاق پر بات ختم ہوئی۔ اب اس میں قصور کس کا؟؟؟ والدین کو انا و رشتہ داریاں برادری ازم چھوڑ کر اپنی اولاد کی پسند و ناپسند کو اہمیت دینی چاہیئے کہ زندگی انھوں نے گزارنی ہے۔حضرت خدیجہؓ اور حضرت فاطمہؓ کے نکاح کے واقعات ہمیں سکھاتے ہیں کہ پسند و رضا مندی کی شادی نہ صرف جائز بلکہ باعثِ رحمت ہو سکتی ہے – اگر اس میں ایمان، ادب، شریعت اور احترام شامل ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

متعلقہ خبریں

قرآن کریم میں جو قوانین اللہ کریم نے ارشاد فرمائے ہیں ان میں مساوات ہے۔رہتی دنیا تک یہ اصول اور ضابطے قابل عمل ہیں۔اور ان پر کیے گئے فیصلے اتنے متوازن ہوتے ہیں کہ اس میں فریقین کے درمیان فتح و شکست نہیں ہوتی بلکہ فریقین کے درمیان ایسا انصا ف ہوتا ہے کہ دونوں مطمئن ہوتے ہیں۔امیر عبدالقدیر اعوان

تازہ ترین خبریں

قرآن کریم میں جو قوانین اللہ کریم نے ارشاد فرمائے ہیں ان میں مساوات ہے۔رہتی دنیا تک یہ اصول اور ضابطے قابل عمل ہیں۔اور ان پر کیے گئے فیصلے اتنے متوازن ہوتے ہیں کہ اس میں فریقین کے درمیان فتح و شکست نہیں ہوتی بلکہ فریقین کے درمیان ایسا انصا ف ہوتا ہے کہ دونوں مطمئن ہوتے ہیں۔امیر عبدالقدیر اعوان