
جہلم ( پروفیسر خورشید علی ڈار)حالیہ دنوں میں جو مہنگائی عروج پر پہنچ چکی ہے اس کے اسباب کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ظلم تو یہ ہے کہ چند اہم اشیاء جن کا تعلق باورچی خانے سے ہوتا ہے وہ عام ادمی کی دسترس سے باہر ہو چکی ہے مثلآ اٹا چینی گھی دالیں وغیرہ اب انتظامیہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر جو بھاشن دیا جاتا ہے کہ مسئلہ رسد اور طلب کا ہے یہ بات بس کسی کو بیوقوف بنانے کے لیے تو ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن حقیقت کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی فرد کو کسی شہری کو دو کلو کو بجائے 12 کلو ٹماٹر چاہیے تو وہ اویلیبل ہیں چیز اگر ناپید ہو تو پھر تو ریٹ کا اضافہ سمجھ میں آتا ہے اٹے کی دس بوریاں نہیں 1100 بوریاں لے کر ہم گھر آسکتے ہیں یہی حالت گھی کی ہے تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حقیقی طور پر انتظامیہ نے ان پر گرفت ڈالی نہیں ہیں یا ان کی ترجیحات میں یہ بات شامل نہیں ہے کہ غریب کے لیے کوہی کام کریں بے لگام ہیں یہ کاروباری حضرات اگر انتظامیہ کو مکمل طور پر دیکھا جائے تو دیکھنے میں جو بات اتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ فرائض کی بجائے نفلی عبادات کرنے میں مصروف ہیں۔ اختیارات کا استعمال کرنا جانتے ہیں فرائض کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہیں کس طرح ممکن ہے کہ انتظامیہ کی گرفت ہو اور یہ جو ناجائز منافع خور ہیں یہ منافع ناجائز حاصل کر سکتے ہیں سوچا بھی نہیں جا سکتا مسلمان ہونا دور کی بات ہے یہ انسانی رویہ بھی نہیں ہے اج سیلاب میں جتنے جانور مر چکے ہیں یہ مسلمان یا انسان کچھ بھی کہہ لیں ان کو ذبح کرتے ہیں اور وہ فروخت کرتے ہیں اب کیا ہوگا اس میں بیماری کا اضافہ ہوگا کیا انتظامیہ نے اس طرف توجہ دی ہے کیا انتظامیہ ایک حکم صادر نہیں کر سکتی کہ جب تک سیلاب کی کیفیت ہے۔۔گوشت فروخت منع ہے تاکہ لوگوں اکثریت بیماری سے محفوظ رہ سکے کوئی چیز جو بھی ہے وہ اپنے روح کے مطابق نہیں ہے غریب ادمی لمحہ بہ لمحہ زمین کے اندر دنسا جارہا ہے۔عیش و عشرت کرنے والے جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کتنی دولت اکٹھی کر چکے ہیں ان کو اس مہنگائی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بڑی خوبصورتی کے ساتھ 14 اگست کا دن بھی منائیں گے 12 ربیع الاول کا دن بھی منائیں گے محسوس ایسا ہوگا کہ ان سے بڑا کوئی مومن نہیں ہے حالانکہ یہ سب سے زیادہ بدترین طبقہ ہے ۔ اللہ تعالی ہم پر رحم کرے ربیع الاول کا مہینہ ہے جس کا منانا بحیثیت مسلمانوں ہم پر فرض ہے کیا دودھ والا دودھ کی ملاوٹ نہیں کر رہا؟؟ کیا با اختیار رشوت نہیں لے رہے اس نے رشوت لینا چھوڑ دی ہے ؟؟؟کیا کوئی ملازم ہے جو اس کے فرائض ہیں کیا وہ دیانتداری کے ساتھ فرائض سرانجام دیتا ہے؟؟؟ کوئی ایک چیز بھی لے جس کی حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے تلقین کی ہے اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہےوہ ہم کررہے ہیں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا معاشرہ اس وقت تباہ ہوتا ہے جب اہل اقتدار انصاف دینے سے قاصر ہوں عوام پستی جا رہی ہے من حیث القوم ہم کسی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو کوئی حقیقی رہنما ہوگا اس کی کردار کشی کرنے میں مصروف ہونگے ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت پاکستانی ہم ملک کی بہتری کے لیے سوچیں بحیثیت انسان بحیثیت مسلمان ہم پر جو فرائض عائد ہیں ان کی بجاآوری احسن طریقے سے سر انجام دیں اگر یہی حالت بدستور مستقبل میں بھی جاری رہی تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایتھوپیا کا نام بھول جائیں گے ایتھوپیا سے بھی بدترین حالت ہماری سوسائٹی کی ہو جائے گی