چیف ایڈیٹر:طارق محمود چودھری  ایڈیٹر: مظہر اقبال چودھری  مینیجنگ ایڈیٹر: ادریس چودھری

جون 16, 2025 7:30 صبح

مسائل زکوٰة، تفصیل کے ساتھ*تحرير*ڈاکٹر فیض احمد بھٹی (جہلم)

*مسائل زکوٰة، تفصیل کے ساتھ*تحرير*ڈاکٹر فیض احمد بھٹی*قارئین! زکوٰة کی ادائیگی کسی خاص وقت کے ساتھ مشروط نہیں، بلکہ جب بھی نصاب و شرائط مکمل ہوں، تو زکوٰة ادا کر دینی چاہیے۔ مگر بیشتر مسلمانوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زکوٰة ماہِ رمضان میں ادا کریں؛ تاکہ کئی گُنا زیادہ ثواب پا سکیں۔ سو رمضان المبارک کے پیشِ نظر یہ کالم سپرد خدمت کر رہا ہوں؛ تاکہ ہر مسلمان مسائلِ زکوٰة سے اچھی طرح آگاہی حاصل کرے، اور مسنون طریقے سے زکوٰة ادا کرے۔*یاد رکھیے!* زکوٰة اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے۔ لہذا یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یہ کِن کن لوگوں پر اور کِن کن چیزوں میں واجب ہوتی ہے۔ نیز اِس کے حقدار کون کون ہیں؟*قارئین!* اِس رْکن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید میں (82) مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا بھی تذكرہ موجود ہے۔ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ لازم و ملزوم ہیں اور اِن دونوں کی فرضیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اِسی لیے خلیفہَ اَول صدیقِ اکبر رض نے فرمایا تھا: اللہ کی قسم! میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرے گا؛ کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اگر انہوں نے زکوٰۃ میں بکری کا بچہ بھی دینے سے انکار کیا، جسے وہ رسول اللہﷺ کو (بطور زکوٰۃ) دیتے تھے، تو میں ان سے لڑوں گا۔ (صحیح البخاری/ کتاب الزکاۃ).*فرضیت زکوٰۃ:* ✓قرآن کے تناظر میں: 1-ترجمہ: اور تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ [سورۃ البقرۃ]۔ 2-ترجمہ: اے نبی! آپ ان کے مالوں سے زکوٰۃ لیجئے۔[سورۃ التوبۃ]۔ 3-ترجمہ: اور تم زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کو قرضِ حسنہ دو۔ [سورۃ المزمل]۔ 4-ترجمہ: کٹائی کے دن اس کا حق (زکوٰۃ) ادا کرو۔ [سورۃ الاَنعام]۔ ✓حدیث پاک کے تناظر میں: 1-ترجمہ: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: (لا إله إلا الله محمد رسول الله) کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا۔۔۔۔[صحیح البخاری/کتاب الایمان]۔ 2-ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے اُن (مسلمانوں) پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کر دی ہے۔ جو ان کے أمرا سے وصول کی جائے گی اور فقرا میں تقسیم کی جائے گی۔ [صحیح البخاری/ کتاب الزکاۃ]۔✓اجماع کے تناظر میں: اِس بات پر تمام علماء اسلام اور فُقہاء اُمت کا اجماع و اتفاق ہے کہ زکوٰة اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے۔ جس کی فرضیت کا منکر دائرہ اسلام سے خارج جبکہ ادائیگی کا تارک فاسق ہے۔ اور حاکم وقت پر لازم ہے کہ اس سے جنگ کرے۔ [بدایۃ المجتھد]۔*مانعینِ زکوٰۃ کا انجام*: 1-ترجمہ: اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ (زکوٰۃ ادا) نہیں کرتے، انہیں درد ناک عذاب کی خبر دے دو کہ جس دن اس خزانے کو آتشِ دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔ [سورۃ التوبہ]۔ 2-ترجمہ: جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی گردن میں (اس کے مال کو) سانپ بنا دیں گے پھر آپ نے ہم پر قران سے اس کا مصداق تلاوت کیا کہ ’’جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں کنجوسی کو (اپنے لیے بہتر) ہر گز خیال نہ کریں‘‘۔ [سنن الترمذی/ کتاب تفسیر القرآن] 3-ترجمہ: جس شخص کے پاس سونا چاندی ہے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کےلئے سونے چاندی کے پترے بنائے جائیں گے پھر ان کو دوزخ کی آگ میں گرم کیا جائے گا۔ پھر ان پتروں سے اس کے پہلووں، اس کی پیشانی اور اس کی کمر کو داغا جائے گا۔ جب پَترے ٹھنڈے ہوں گے تو انہیں دوبارہ گرم کیا جائے گا۔ اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی۔ یہاں تک کہ انسانوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا۔ ہر شخص اپنا ٹھکانہ دیکھ لے گا کہ جنت میں ہے یا جہنم میں۔ [صحیح مسلم/کتاب الزکاۃ]- 4-ترجمہ: جو لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے وہ بارانِ رحمت سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر بارش کا نزول کبھی نہ ہو۔ [سنن ابنِ ماجہ/کتاب الفتن] مذکورہ آیات و أحادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے پہلو تہی کی صورت میں بہت بڑی رُسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نیز اس معصیت کی وجہ سے مال و جان، گھربار اور ماحول سے خیر و برکت اٹھ جاتی ہے۔*زکوٰۃ کِس پر واجب ہوتی ہے:* زکوٰۃ اس شخص پر واجب ہوتی ہے جس میں درجِ ذیل پانچ شروط ہوں: 1-مسلمان ہو کیونکہ کافر احکامِ اسلام کا ذِمّے دار نہیں۔ [صحیح البخاری/ کتاب الزکاۃ و مصنف ابن ابی شیبہ]۔ 2-آزاد ہو کیونکہ غلام خود کسی دوسرے کی ملکیت ہوتا ہے۔ [بدایۃ المجتھد لابن رشد و المُحلّی لا بن حزم]۔ 3-مال مقررہ نصاب کے مطابق ہو۔[صحیح البخاری/ کتاب الزکاۃ] جس کی تفصیل سُطورِ ذیل میں بیان ہوگی۔ 4-صاحبِ ملکیت تام ہو۔ [سورہ التوبہ] کیونکہ بعض اوقات آدمی مالک تو ہوتا ہے مگر اس کی ملکیت تام نہیں بلکہ ناقص ہوتی ہے۔ جیسے کسی کو قرض دیا تو در حقیقت مالک تو یہی ہے مگر رقم اس کے ہاتھ میں نہیں بلکہ مقروض کے ہاتھ میں ہے۔ تو ایسی صورت میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، اِلا کہ مال واپس مالک کے ہاتھ میں آجائے تو پھر زکوٰۃ ادا کرے گا۔ 5-مال پر مکمل ایک سال گزر چکا ہو۔ [سنن اَبی داوَد/کتاب الزکاۃ]۔*زکوٰۃ کِن چیزوں میں واجب ہوتی ہے:* *1۔سونا:* سونا جب 20 دینار ہو جو کہ موجودہ اوزان کے مطابق ساڑھے سات تولہ یعنی (85) گرام بنتا ہے تو نصاب مکمل ہوجاتا ہے۔ پس اس کا چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ ادا کیا جائے گا۔ [سنن اَبی داوَد/ کتاب الزکاۃ]۔*2۔چاندی:* چاندی جب 200 درہم ہو جو کہ موجودہ اوزان کے مطابق ساڑھے باون تولہ یعنی (595) گرام بنتی ہے تو نصاب مکمل ہے۔ اور اس کا بھی چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ ادا کیا جائے گا۔ [صحیح البخاری/ کتاب الزکاۃ]۔ *نوٹ:* اُس سونے اور چاندی پہ بھی زکوٰۃ واجب ہوگی جو خواتین بطورِ زیورات استعمال کرتی ہیں بشرطیکہ وہ نصابِ زکوٰۃ کے مطابق ہو اور سال بھی مکمل ہو جائے۔ جیسا کہ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور جمہور علماءِ امت کا بھی یہی موقف ہے۔*3-کرنسی:* ہر قسم کی کرنسی (ڈالر، پاؤنڈ، یورو، درھم، دینار، ریال وغیرہ) یعنی کاغذی نوٹوں میں بھی نصاب چاندی یا سونے کے برابر ہی ہے۔ (سنن ابی داود/کتاب الزکوٰۃ) کیونکہ یہ کرنسی دراصل سونے چاندی کا ہی بدل ہوتی ہے۔ لہٰذا نصاب پورا ہونے اور سال گزرنے پر اس میں سے ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ دی جائے گی۔*4-عُروضِ تجاریہ:* عروضِ تجاریہ سے مراد وہ کاروباری سامان ہے جو خرید و فروخت کیلیے رکھا ہو۔ مثلاً ہر قسم کے کپڑے، جوتے، برتن، معدنیات، سونا، چاندی، ادویات، آلات، مشینری، سامان لکڑی، گاڑیاں، پلاٹ، دوکانیں، مکانات الغرض ہر وہ سامان جو خرید و فروخت کےلئے ہو وہ عروضِ تجاریہ کہلاتا ہے۔ حتیٰ کہ کمپنی حِصص (شیئر) بھی اگر تجارتی مقصد کےلیے خریدے گئے ہوں تو اسے بھی تجارتی سامان ہی تصور کیا جائے گا۔ اگر مذکورہ سامان کی قیمت نصابِ چاندی کے برابر ہو، تو نصاب مکمل ہوجاتا ہے۔ (سنن ابی داود/کتاب الزکوٰۃ) چنانچہ اس پہ زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے ۔ (فإن رسول اللهﷺ کان یأمرنا أن نخرج الصدقة مما نعدہ للبیع) ترجمہ: پس رسول الکریمﷺ ہمیں اس مال سے زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے جسے ہم خرید و فروخت کےلئے رکھا کرتے تھے۔ [سنن اَبی داود/ کتاب الزکاۃ]۔*اس تجارتی سامان* کی ادائیگیِ زکوٰۃ کا طریقہ کچھ یُوں ہوگا کہ ہر سال جتنا تجارتی مال دوکان، مکان یا گودام وغیرہ میں باقی موجود ہو اس کی قیمت کا اندازہ لگا لیا جائے۔ علاوہ ازیں جتنی رقم گردش میں ہو اور جو رقم نقدی کی صورت میں ہاتھ میں ہو، اسے بھی شامل کر لیا جائے *پھر* نمبر(1) اس موجودہ رقم، نمبر(2) گردشی رقم یعنی کاروبار میں لگا ہوا سرمایہ اور نمبر(3) سامانِ تجارت کی اندازاً قیمت لگا کر سب کو ملا کر ٹوٹل جتنی رقم بنے گی، اُس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے۔ *وضاحت:* وہ تمام اشیاء جو بطورِ آلات یا ذرائع آمدن استعمال کی جاتی ہیں وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوں گی۔ مثلاً: آلات و مشینری برائے فیکٹریز یا ملز، کرایہ پر دیے گئے مکان و دوکان، کرایہ پر دی جانے والی گاڑیاں وغیرہ اسی طرح فیکٹریوں، کارخانوں اور مِلوں کی زمین، عمارت، فرنیچر اور مشینری وغیرہ پر بھی زکوٰۃ نہیں ہو گی جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: کہ کام کرنے والے جانوروں (عواملہ) پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ (سنن ابی داءود/ کتاب الزکوٰۃ) دوسری حدیث میں ہے: کہ گھوڑے اور غلام پہ زکوٰۃ نہیں۔ (سنن ابی داود/کتاب الزکوٰۃ) اُس دور میں مشہور آلات و مشینری یہی جانور، غلام اور کچھ دستی اوزار ہی تھے۔ *مگر ہاں* اِن آلات و مشینری، فیکٹریز اور کرایہ پر دیے گئے مکانوں اور دوکانوں کی آمدنی پر زکوٰۃ ضرور ادا کی جائے گی وہ بھی اگر سال گزر جائے اور نصاب مکمل ہو۔*5۔معدنیات:* کوئلہ، لوہا، پیڑول، گیس وغیرہ۔ معدنیات کے نصاب اور وقتِ ادائیگی میں اگرچہ کچھ فقہی اختلاف ہے تاہم نصوصِ شرعیہ کے مطابق راجح اور بہتر یہی ہے کہ معدنیات کو بھی عروضِ تجاریہ یعنی تجارتی سامان میں شامل کرتے ہوئے اس کی آمدنی پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچے اور اس پر سال بھی گزر جائے۔ [سنن اَبی داوَد/کتاب الزکاۃ و موَطا مالک/ کتاب الزکاۃ]۔*6۔رِکاز:* یعنی دفن شدہ خزانہ اگر ہاتھ لگے تو راجح یہی ہے کہ یہ جتنی مقدار میں بھی ملے تو وقتِ حصول ایک بار ہی اُس کا پانچواں حصہ بطورِ زکوٰۃ ادا کیا جائے گا۔ [صحیح البخاری/کتاب الزکاۃ]۔*7-اجناس:* گندم، چاول، مکئی، باجرا، فروٹ اور خشک میوہ جات وغیرہ جب 5 وسق یعنی پاکستانی اوزان کے مطابق 20 مَن ہوں تو نصابِ زکوٰۃ مکمل ہے اور زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے۔ جسے شرعی اصطلاح میں عُشر کہا جاتا ہے۔ *یاد رہے* جب یہ اجناس قدرتی وسائل سے حاصل ہوں مثلاً: بارش سے سیراب ہونے والی زمین سے جیسے بارانی زمینیں، یا قدرتی چشموں سے جیسے پہاڑی علاقہ جات یا پھر خود بخود نمی سے سیراب ہونے والی زمینوں سے تو اُس میں سے پورا عُشر یعنی دسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ ادا کیا جائے گا۔ اور اگر یہ اجناس ذاتی اخراجات مثلاً: ٹیوب ویلز، نہروں، جھلاروں کے پانی اور کھاد و ادویات سے کاشت کی گئی ہوں، تو اُن میں نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ دیا جائے گا۔ [صحیح مسلم/ کتاب الزکاۃ]۔ *نوٹ:* اَجناس میں زکوٰۃ اُس وقت واجب ہوتی ہے جب یہ برداشت (حاصل) کی جاتی ہیں؛ *لہٰذا* اگر کوئی فصل سال میں دو بار برداشت کی جاتی ہو تو اس میں عشر بھی دو مرتبہ ہی ادا کیا جائے گا۔ [سورۃ الانعام: 141]۔*8-شہد:* وہ شہد جو قدرتی وسائل سے حاصل ہوا ہو اس کا نصاب 75 کلو گرام ہے۔ جس سے بطور زکوٰۃ دسواں حصہ ہی ادا کیا جائے گا۔ [سنن الترمذی/ کتاب الزکاۃ]۔*9-چوپائے:* مثلاً: اونٹ، گائے، بھینس، بکری، بھیڑ، دُنبہ وغیرہ۔ *قارئین:* پاکستان کے بیشتر مقامات ایسے ہیں جہاں مذکورہ جانوروں میں سے کوئی نہ کوئی قسم ضرور پائی جاتی ہے؛ لہٰذا ضروری ہے کہ اِن کی بھی تفصیل بیان ہو جائے: *اونٹ:* پانچ عدد اونٹ ہوں تو نصاب مکمل ہو جاتا ہے۔ 5 اونٹوں سے 24 تک ہر پانچ پر ایک بکری کے حساب سے زکوٰۃ دی جائیگی۔ 25 سے 35 تک ایک سال کی اونٹنی بطورِ زکوٰۃ دی جائیگی۔ 36 سے 45 تک دو برس کی اونٹنی دی جائیگی۔ 46 سے 60 تک تین برس کی اونٹنی دی جائیگی۔ 61 سے 75 تک زکوٰۃ میں چار سال کی اونٹنی دی جائیگی۔ 76سے 90 تک دو، دو برس کی دو عدد اونٹنیاں بطورِ زکوٰۃ دی جائیں گی۔ اور 120 سے زائد کی تعداد میں ہر 40 اونٹوں پر 2 برس کی ایک اونٹنی کے حساب سے یا پھر ہر 50 اونٹوں پر 3 سال کی ایک اونٹنی کے حساب سے زکوٰۃ دی جائیگی۔ [صحیح البخاری/ کتاب الزکاۃ]۔ *گائے، بھینس:* گایوں، بھینسوں کی تعداد جب 30 ہو تو نصابِ زکوٰۃ مکمل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا 30 گایوں یا بھینسوں پر ایک سال کا بچہ بطورِ زکوٰۃ ادا کیا جائے گا۔ 40 کی تعداد میں ہوں تو 2 بچے جن کی عمر 2 سال ہو بطور زکوٰۃ دیے جائیں گے۔ 60 سے زائد کی صورت میں ہر 30 پر ایک سال کے بچے کے حساب سے یا پھر ہر چالیس کے اعتبار سے 2 سال کا ایک بچہ ادا کیا جائے گا۔ [سنن اَبی داوَد/ کتاب الزکاۃ]۔ *بکری، بھیڑ، دُنبہ:* جب بکریوں، بھیڑوں یا دنبوں کی تعداد 40 ہو جائے تو نصاب مکمل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا سال گزرنے پر 40 سے 120 بکریوں تک ایک بکری بطورِ زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ 121 سے 200 تک دو بکریاں دی جائیں گی۔ 201 سے 300 تک تین بکریاں دی جائیں گی۔ جبکہ 300 سے زائد کی صورت میں ہر 100 پر ایک بکری کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ [صحیح البخاری;223; کتاب الزکاۃ]۔ *وضاحت:* زکوٰۃ اُن مویشیوں پر واجب ہوتی ہے جو سال بھر یا نصف سال سے زائد عرصہ قدرتی وسائل پر گزارہ کرتے ہوں اور وہ کام کاج کےلیے بھی مستعمل نہ ہوں۔ *ہاں اگر* گھریلو اخراجات و استعمال کیلیے ہوں تو اُن پر زکوٰة واجب نہیں ہوگی۔ *البتہ* دودھ یا گوشت بیچنے (ڈیری فارمز وغیرہ) کی غرض سے رکھی ہوں تو پھر اُن کی آمدنی پر زکوٰة دینی پڑے گی، وہ بھی تب جب نصاب اور سال مکمل ہو تو۔ *مستحقینِ زکوٰۃ:**1-فقرا:* جن کے پاس گزر اوقات کے لئے کچھ نہ ہو۔*2-مساکین:* وہ لوگ جن کی حالت فقرا سے قدرے بہتر ہوتی ہے لیکن پھر بھی تنگ دست ہوتے ہیں۔ اور ضروریاتِ زندگی احسن طریقے سے پوری نہیں کر پا تے۔*3-عاملینِ زکوٰۃ:* وہ لوگ جن کے ذِمے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم ہوتی ہے۔ یا وہ زکوٰۃ کی حفاظت وغیرہ کا بندوبست کرتے ہیں۔*4-تالیفِ قلب:* ان لوگوں کو زکوٰۃ دینا جو نان مسلم ہوں، مگر اِس امید پر کہ وہ مسلمان ہوجائیں یا کسی نَو مسلم کو دینا تاکہ وہ راسخ الاِیمان ہو جائے۔*5-غلام و قیدی:* تاکہ انہیں آزادی دلائی جاسکے۔*6-مقروضین:* تاکہ انہیں قرض کے بوجھ سے نجات دلائی جاسکے۔*7-مجاہدین:* جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلے ہوں۔ خواہ وہ مالدار ہی ہوں۔ *8-مسافرین:* یعنی ایسے لوگ جو زادِ راہ کے محتاج ہو جائیں۔ [سورۃ التوبہ]۔*وہ لوگ جنہیں زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی:**1-* کافر و مرتد کو زکوٰۃ دینا حرام ہے۔ [صحیح البخاری/ کتاب الزکاۃ] مگر وہ کفار جنہیں تالیفِ قلب کےلیے زکوٰۃ دینی جائز ہے وہ اِس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ [تفسیر سورۃ التوبہ]۔*2-* آل رسولﷺ یعنی بنو ہاشم و بنو مطلب کو زکوٰۃ دینا حرام ہے۔ [صحیح مسلم/ کتاب الزکاۃ]۔ کیونکہ سادات کی ضروریات پوری کرنا مسلم سٹیٹ پر واجب ہوتا ہے۔*3-* والدین، اولاد اور بیوی کو بھی زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔ [القرآن الکریم و سنن ابن ماجہ/ کتاب التجارات]؛ کیونکہ اولاد کا مال در حقیقت والدین کا ہی مال ہوتا ہے۔ جبکہ بیوی کا نان و نفقہ خاوند پر اور اولاد کا باپ پر واجب ہے۔*4-* جمہور علما کے نزدیک مسجد پر بھی زکوٰۃ استعمال نہیں کی جاسکتی۔ [مجموع الفتاوی لابن باز]۔ *طلبہِ مدارس اور مسئلۂ زکوٰۃ:*مدارسی طلبہ کو فقرا و مساکین اور مسافرین کی مدّ میں شمار کرتے ہوئے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے عظیم مذہبی سکالر "حافظ صلاح الدین یوسف” یوں رقم طراز ہیں: فقرا و مساکین میں وہ لوگ سر فہرست ہیں جو اپنے آپ کو اللہ کے دین کےلیے وقف کرتے ہیں۔ اللہ کے دین کی خاطر اپنا گھر بار اور کاروبار ترک کر دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کریں۔ ایسے خود دار اور متعفف ضرورت مند علما و طلبہ کی امداد آبرو مندانہ طریقے سے بہت ضروری ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: (خیرات اُن فقیروں کےلیے ہے جو روکے ہوئے ہیں اللہ کی راہ میں جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے۔ ان کے سوال نہ کرنے سے ناواقف ان کو مال دار سمجھے۔ تُو ان کے چہرے سے ان کو پہچانتا ہے۔ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے)۔ [سورۃ البقرۃ]۔ نبی کریمﷺ نے بھی مسکین کی تعریف میں اس آیت کا حوالہ دیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: ترجمہ: مسکین تو وہ ہے، جو سوال کرنے سے بچتا ہے۔ اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ لو (وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے)۔ [صحیح البخاری/ کتاب التفسیر]۔ *متذکرہ بالا* آیت و حدیث سے واضح ہوا کہ جو علما و طلبہ اپنے آپ کو علم دین کے سیکھنے، سکھانے اور اس کی نشر و اشاعت کےلیے وقف کر دیں اور کاروباری مصروفیتوں پر دینی تعلیم و تعلم کو ترجیح دیں، تو اُن کی حاجات و ضروریات بھی زکوٰۃ کی مد سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ اور ان کی علمی ضرورتیں پورا کرنے کے لئے کتابیں بھی زکوٰۃ فنڈ سے خرید کر دی جاسکتی ہیں۔*فلسفۂ زکوٰۃ:* 1-زکوٰۃ کی ادائیگی عبادتِ خداوندی کا ایک اعلیٰ ترین مظہر ہے۔ 2-اس کی ادائیگی سے مال میں یقینی پاکیزگی اور خیر و برکت پیدا ہو جاتی ہے. 3-ادائیگیِ زکوٰۃ سے مال آفات و بلیّات سے محفوظ رہتا ہے۔ 4-اس سے اللہ کا تقرب اور لوگوں کی محبت و مودت نصیب ہوتی ہے۔ 5-اس کی ادائیگی سے خلقِ خدا کے ساتھ اچھے سلوک اور احسان کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جس سے آپس میں باہمی اخوت پیدا ہوتی ہے اور نتیجتاً معاشرے میں امن و سلامتی کی فضا نشو و نما پاتی ہے۔ کیونکہ جب آپ زکوٰۃ کی صورت میں تعاون کے ذریعے محتاج لوگوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں، تو وہ پھر اپنی ضروریات کےلیے چوری ڈاکے کی طرف نہیں جاتے۔*آخر میں* حکومت کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ جتنی مغز ماری اور اشتھار بازی طرح طرح کی ٹیکس وصولی کےلیے کی جاتی ہے اگر اتنی توجہ زکوٰۃ کی ادائیگی کو یقینی بنانے پر صرف کی جاۓ اور دوسری طرف پاکستانی مسلمان بھی ایمانداری سے زکوٰۃ ادا کرتے رہیں، تو ان شاء اللہ ہر اس برائی اور جرم سے جان چھوٹ جائے گی جو غربت اور تنگدستی کی وجہ سے ہمارے ملک و قوم کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ بلکہ کافی حد تک کمر توڑ اور فضول ٹیکسز سے بھی چُھٹکارہ مل جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

متعلقہ خبریں

جہلم// ادریس چودھری// سنت ابراھیمی (قربانی)جو کہ نبی کریم ﷺ نے ادا کی ہم قربانی کر کے آپ ﷺ کی سنت ادا کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں جانور ذبح کر کے اس اجر عظیم میں حصہ پا لیتے ہیں جو حضرت ابراھیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کی گردن پر چھر ی چلا کر پایا۔شرط یہ ہے کہ ہمارا یہ عمل خالص نیت کے ساتھ ہوصرف اور صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو۔اپنی خواہشاتِ ذاتی کو قربان کرکے احکام خداوندی کو بجا لانا اصل قربانی ہے۔ امیر عبدالقدیر اعوان

تازہ ترین خبریں

جہلم// ادریس چودھری// سنت ابراھیمی (قربانی)جو کہ نبی کریم ﷺ نے ادا کی ہم قربانی کر کے آپ ﷺ کی سنت ادا کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں جانور ذبح کر کے اس اجر عظیم میں حصہ پا لیتے ہیں جو حضرت ابراھیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کی گردن پر چھر ی چلا کر پایا۔شرط یہ ہے کہ ہمارا یہ عمل خالص نیت کے ساتھ ہوصرف اور صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو۔اپنی خواہشاتِ ذاتی کو قربان کرکے احکام خداوندی کو بجا لانا اصل قربانی ہے۔ امیر عبدالقدیر اعوان