
*زہے نصیب کہ حجِ بیت اللہ اور لُطف و کرم کی بارش*نگارشات از *ڈاکٹر فیض احمد بھٹی* فاضل مدینہ یونیورسٹی ۔۔قارئین! حج بیت اللہ کی ادائیگی بالکل قریب آچکی ہے، حاجی صاحبان سب سے بڑے دربار کی حاضری کا قصد کر چکے ہیں، دل میں دیارِ محبوب کی آرزوئیں مچل رہی ہیں، سفر طویل ہے، حلال و طیب توشہ سفر کا اہتمام کیا جا رہا ہے، نیک اور صالح رفقا کی تلاش ہو رہی ہے، چشمِ پُرنم کے ساتھ عزیز و اقارب سے رخصت ہو رہے ہیں، لین دین کا حساب کلیئر کیا جارہا ہے، حقوق کی معافی طلب کی جا رہی ہے۔ مطلب کوشش یہ ہے کہ اس دربار میں حاضر ہوں تو کسی کا معمولی حق بھی گردن پر نہ ہو۔لیجئے! روانگی کا وقت آ پہنچا، غسل کر لیجئے اور دو سفید نئی چادریں پہن لیجئے! گویا انسان خود اپنے ارادہ و اختیار سے سفرِ آخرت پر روانہ ہو رہا ہے۔ پہلے غسل سے بدن کے ظاہری میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور پھر کفن کی سی چادریں اوڑھ کر دوگانہ احرام ادا کرتا ہے۔ اس طرح گویا توبہ و انابت سے دل کے میل کچیل سے اپنے باطن کو پاک صاف کرتا ہے، اور ظاہری و باطنی نظافت کے ساتھ شاہی دربار میں نذرانہ عشق و محبت پیش کرنے کا عہد کر لیتا ہے۔ارحم الراحمین نے دعوت دے کر بلایا ہے اور شاہی دربار سے بُلاوا آیا ہے، یہ فوراً ’’بیت اللہ الحرام‘‘ کے شوقِ دیدار میں اس دعوت پر "لبیک اللّٰہم لبیک” (میں حاضر ہوں، اے میرے اللہ!میں حاضر ہوں) کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مستانہ وار سوئے منزل روانہ ہوجاتا ہے۔ یہ اس والہانہ عبادت کی ابتدا ہے جس میں زیب و زینت کے تمام مظاہر ختم، راحت و آسائش کے تمام تقاضے فراموش، نہ سر پر ٹوپی، نہ پاؤں میں ڈھب کا جوتا، نہ بدن پر ڈھنگ کا کپڑا، دیوانہ وار رواں دواں منازلِ محبت طے کرتا ہوا جا رہا ہے۔ دیارِ محبوب کی دھن میں بادہ پیمائی ہو رہی ہے۔ وہاں پہنچتے ہی مرکزِ تجلیات (کعبۃ اللہ) پر نظر پڑی تو بے ساختہ دارِ محبوب کا طواف کرتا ہے، بار بار چکر لگاتا ہے، حجرِ اسود جو "یمین اللّٰہ فی الارض” کی حیثیت رکھتا ہے اس کو چومتا ہے، ملتزم سے چمٹتا ہے، زار و قطار روتا ہے، گویا زبانِ حال سے کہتا ہے:نازم بچشمِ خود کہ روئے تو دیدہ استرفتم بپائے خویش کہ بکویت رسیدہ استہزار بار بوسہ زنم من دستِ خویش راکہ بدامنت گرفتہ بسویم کشیدہ استاس بے خود محبِ زار کو جو قلبِ تپاں اور جگرِ سوزاں لے کر آیا تھا، پہلی مہمانی کے طور پر "آبِ زمزم” کا تحفہ شیریں پیش کیا جاتا ہے، جس سے تسکینِ قلب بھی ہوگی اور جگر کی پیاس بھی بجھے گی۔ اور حکمِ عام ہے کہ جتنا پانی پیا جا سکے پی لو، دل خوب ٹھنڈا کر لو، کوئی کسر نہ چھوڑو، یہاں سے فارغ ہوکر صفا مروہ کے درمیان چکر لگاتا ہے۔پھر منیٰ پہنچتا ہے، پھر اس کے آگے عرفات کا رُخ کرتا ہے۔ آج وادیِ عرفات سچ مُچ ہنگامہ محشر کا منظر پیش کر رہی ہے، حیرت انگیز اجتماع ہے، رنگا رنگ کی مختلف شکلیں، مختلف زبانیں، عجیب مناظر، یہ سب رب العالمین کے دربارِ اقدس کے مہمان ہیں، یہ شاہی دربار میں عبدیت و بندگی، ضعف و بے کسی، عجز و درماندگی کا نذرانہ پیش کریں گے اور رضا و مغفرت، فضل و احسان اور انعام و اکرام کے گوہر مقصود سے جھولیاں بھر کر لے جائیں گے۔ اپنے لیے، اپنے اعزہ و اقارب اور دوست احباب کےلیے آج جو کچھ بھی مانگیں گے سب نقد ملے گا۔جونہی زوال ہوا تو ہر طرف سے آہ و بکا کا شور برپا ہوا، اس کی آواز بھی اس حیرت انگیز طوفانِ گریہ و زاری میں ڈوب گئی، شام تک کا سارا وقت اسی عالم تحیر میں گزارتا ہے، کبھی خوب رو رو کر مانگتا ہے، کبھی ’’ لبیک أللّٰہم لبیک‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے، کبھی تکبیر کی گونج سے زمزمہ آراء ہوتا ہے، تو کبھی تسبیح سے نغمہ سرا ہوتا ہے، اور کبھی (لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہ) سے وحدانیت و ربوبیت کے ترانے بلند کرتا ہے۔سوچیے! عابد و معبود کا یہ تعلق کتنا دلربا ہے؟! بندگی و سرافگندگی کا یہ منظر کس قدر حیرت افزا ہے؟!آفتاب غروب ہوا اور اس دشت پیما نے بوریا بستر باندھ کر مزدلفہ کا رُخ کیا۔ اب شب بیداری وہاں ہوگی، مغرب و عشا کی نماز وہاں پڑھی جائے گی، اظہارِ آدابِ بندگی میں کچھ کسر باقی رہ گئی ہے تو وہاں نکالی جائے گی، کبھی رکوع و سجود ہے، کبھی قیام و قعود ہے، کبھی تہلیل و تکبیر ہے، کبھی تسبیح و تلبیہ۔ گریہ و زاری، دعا و مناجات اور تضرع و ابتہال کا نصاب پورا ہوا تو کامیابی و کامرانی کی نعمت سے سرشار ہو کر وہاں سے منیٰ کو چل دیا۔ پھر دشمنِ انسانیت، عدو مبین، راندہ بارگاہ "ابلیس لعین” کی سرکوبی کےلیے جمرہ کی رمی کی، خلیل و ذبیح (علی نبینا وعلیہما الصلاۃ والسلام) کی سنت ِقربانی کی یاد تازہ کرنے کےلیے اللہ تعالیٰ کے نام پر قربانی دی اور رضائے محبوب کےلیے جان و مال کے ایثار کا عہد تازہ کر لیا۔ وہاں سے بارگاہِ قدس کے مرکزِ انوار کی زیارت کو چلا اور طوافِ کعبہ کے انوار و برکات سے دیدہ و دل کی تسکین کا سامان کیا۔۔۔۔۔۔۔الغرض اس محبانہ و والہانہ عبادت میں دیوانہ وار ایثار و قربانی اور عبدیت و فنائیت کا ریکارڈ قائم کرلیتا ہے، اور تجلیاتِ ربانی کے انوار و برکات سے سراپا نور بن جاتا ہے، اور رحمت و رضوان کے تحفوں سے مالا مال ہوکر، اور استحقاقِ جنت کی آخری سند لے کر اپنے وطن کو واپس لوٹتا ہے۔ یُوں بندہ خدا اپنی بندگی کا ثبوت دے کر فردوسِ اعلی و رضوانِ بالا کی نعمتوں سے سرفرازی کے تغمے وصول کر لیتا ہے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق: (والحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ) کے آخری انعام سے مطمئن ہوجاتا ہے۔دیکھیے! کس انداز و راز سے محبت و عبادت کی منزلیں طے کی گئیں اور کس کس طرح شاباشوں سے نوازا گیا۔قارئین! یہ اس مخلصانہ و عارفانہ عبادت کا انتہائی مختصر سا نقشہ ہے، جسے "حج بیت اللہ” کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔