آج کل میڈیا کی پوری توجہ موٹر وے کیس پر مرکوز ہے۔ ظاہر ہے کہ اس واردات نے پوری قوم کو صدمے اور احساس تحفظ کے فقدان میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس صورتحال کی بنیادی وجوہات اور اپنے مشاہدات کی طرف بعد میں آتا ہوں فی الحال مجھے ایک اور ٹائم بم کی جانب اشارہ کرنا ہے جو کسی وقت بھی پھٹنے اور تباہی پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اندر ہی اندر مذہبی منافرت کی آگ آہستہ آہستہ بھڑکائی جا رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ حکومت اس خطرے سے آگاہ نہیں اور خفیہ ایجنسیاں بھی اس خطرے کا ادراک نہیں رکھتیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق نہایت ہوشیاری سے شیعہ سنی منافرت پھیلائی جا رہی ہے، بارود اپنے اپنے مقامات پر رکھا جا رہا ہے اور کسی وقت بھی چھوٹا سا واقعہ اس بارود کو آگ لگا کر بڑا دھماکہ کر سکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت سے گزارش ہے کہ منافرت کی سلگتی ہوئی چنگاریوں پر قابو پائیں اور عقلمندی سے ان چنگاریوں کو بجھائیں۔ تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیںکہ عقل منداں را اشارہ کافی است۔
آج سے کوئی تین دہائیاں قبل اس وقت کے آئی جی پولیس سے چائے کے پیالی پر گپ شپ ہو رہی تھی۔ میں پنجاب میں صوبائی سیکرٹری تھا اور ’’لا اینڈ آرڈر‘‘ سے بھی متعلق تھا۔ آئی جی پولیس ایک ذہین، تجربہ کار اور ماہر پولیس آفیسر تھے۔ انہوں نے ایس پی سے لے کر آئی جی تک پنجاب میں طویل عرصہ گزارا تھا۔ ان کی اصل خوبی ان میں قائدانہ صلاحیت تھی جس سے کام لے کر اپنی فورس کا ’’مورال‘‘ اور اعتماد بحال رکھتے تھے اور انہیں متحرک بھی رکھتے تھے۔