چیف ایڈیٹر:طارق محمود چودھری  ایڈیٹر: مظہر اقبال چودھری  مینیجنگ ایڈیٹر: ادریس چودھری

فروری 19, 2025 8:00 شام

فنڈنگ کے مسائل اور خدشات میں گھرے طلبا

القادر ٹرسٹ کیس، القادر یونیورسٹی کیس، 190 ملین پاؤنڈ کیس، 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس۔۔۔

گذشتہ دو سال کے دوران اِن الفاظ کا تواتر سے استعمال آپ نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں نشر اور شائع ہونے والی خبروں میں دیکھا اور سُنا ہو گا۔

جمعے کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمے میں سنائے گئے فیصلے میں جہاں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو قید اور جرمانے کی سزا سنائی وہیں القادر یونیورسٹی کو بھی سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا ہے۔

بی بی سی اُردو نے اس فیصلے سے قبل القادر یونیورسٹی کا دورہ کیا اور جاننے کی کوشش کی یہ یونیورسٹی کیسے کام کر رہی ہے۔

القادر یونیورسٹی اسلام آباد سے تقریبا 85 کلومیٹر دور جی ٹی روڈ پر ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں تعمیر کی گئی ہے۔ 458 کنال رقبے پر محیط یہ یونیورسٹی پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے اور اس کے ارگرد کوئی باقاعدہ آبادی نہیں ہے۔

یہ یونیورسٹی القادر ٹرسٹ کے زیر انتظام چلتی ہے جس کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان ہیں جبکہ اُن کی بیوی بشری بی بی بورڈ اف ٹرسٹیز کی رُکن ہیں۔

القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد سنہ 2019 میں عمران خان نے ہی رکھا تھا جبکہ اس یونیورسٹی میں درس و تدریس کا کا باقاعدہ آغاز سنہ 2021 میں ہوا تھا اور ابتدا میں اس یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا کی تعداد 30 کے قریب تھی۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ اس یونیورسٹی میں کوئی بھی طالبعلم زیر تعلیم نہیں ہے۔ تاہم جب بی بی سی کی ٹیم القادر یونیورسٹی پہنچی تو وہاں کے حالات وفاقی وزیر اطلاعات کے دعوے سے کچھ مختلف تھے۔

یہاں پر موجود طلبا میں لڑکیاں بھی شامل تھیں جبکہ یونیورسٹی میں کافی چہل پہل تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

متعلقہ خبریں

تازہ ترین خبریں